Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں ’نان کسٹم‘ موبائل فون کی سمگلنگ کس طرح کی جاتی ہے؟

نان کسٹم موبائل فون کی سمگلنگ پاکستان کا ایک دیرینہ مسئلہ ہے، مگر چند روز قبل کی گئی کارروائی نے اس مسئلے کے پھیلاؤ اور اس کے مالی حجم کے بارے میں کئی اہم سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
کراچی کے علاقے کیماڑی میں موچکو پولیس نے خفیہ اطلاع پر ایک بڑی کارروائی کرتے ہوئے نہ صرف کروڑوں روپے مالیت کے نان کسٹم شدہ موبائل فونز کی کھیپ اپنی تحویل میں لی، بلکہ ایسے شواہد بھی حاصل کیے ہیں جو بلوچستان سے کراچی تک پھیلے ہوئے ایک منظم سمگلنگ نیٹ ورک کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔
کیماڑی پولیس نے اردو نیوز کو بتایا کہ پولیس کو اطلاع ملی کہ ایک کار کے ذریعے قیمتی سمارٹ فونز کی بڑی کھیپ کراچی منتقل کی جا رہی ہے۔
ایس ایس پی کیماڑی امجد احمد شیخ کے مطابق ’موچکو پولیس نے فوری طور پر ناکہ بندی کی اور کارروائی کرتے ہوئے دو مشتبہ افراد سجاد اور نور حسن کو روک کر پوچھ گچھ کی۔ پولیس نے مشتبہ افراد کی گاڑی کی تلاشی لی، اور گاڑی سے 170 نان کسٹم موبائل فونزبرآمد ملے جن میں آئی فون اور جدید اینڈروئیڈ ماڈلز شامل تھے۔ ابتدائی اندازوں کے مطابق ان فونز کی مجموعی قیمت کروڑوں روپے بنتی ہے۔‘

بلوچستان سے کراچی تک سمگلنگ کا راستہ

پولیس ذرائع کے مطابق ملزمان نے اعتراف کیا کہ ’یہ موبائل فونز بلوچستان کے راستے بیرونِ ملک سے غیرقانونی طور پر لائے گئے تھے۔ یہ نیٹ ورک عام طور پر ایران یا افغانستان کی سرحد سے سامان اندر لاتا ہے، جہاں سرحدی علاقوں سے سمگلنگ آسان ہو جاتی ہے۔ وہاں سے یہ سامان بلوچستان کے مخصوص راستوں سے اندرون ملک منتقل کیا جاتا ہے اور پھر کراچی جیسے بڑے تجارتی مراکز میں پہنچا کر منافع کے ساتھ فروخت کیا جاتا ہے۔‘
بلوچستان کی جغرافیائی ساخت سمگلروں کے لیے فائدہ مند سمجھی جاتی ہے۔ طویل سرحد، دشوار گزار پہاڑی راستے اور وسیع ویران علاقے ایسے عوامل ہیں جن کے باعث سامان کی نقل و حمل اکثر سرکاری ریکارڈ سے باہر رہتی ہے۔
حکام کے مطابق موبائل فون کے علاوہ الیکٹرانکس، کپڑے اور دیگر قیمتی اشیا بھی انہی راستوں سے لائی جاتی ہیں، مگر اس مخصوص کارروائی نے اس نیٹ ورک کے ایک بڑے حصے پر ضرب لگائی ہے۔

نان کسٹم موبائل فونز کی بڑھتی ہوئی طلب اور قیمتیں

پاکستان میں موبائل فونز کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹیز اور ٹیکسز کافی زیادہ ہیں، جس کے باعث نان کسٹم فونز کی غیرقانونی منڈی پھل پھول رہی ہے۔ لوگ نسبتاً کم قیمت پر اچھا فون خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں، جبکہ سمگلرز اسی رجحان کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔

پولیس ذرائع کے مطابق ملزمان نے اعتراف کیا کہ ’یہ موبائل فونز بلوچستان کے راستے بیرونِ ملک سے غیرقانونی طور پر لائے گئے تھے۔‘ (فوٹو: سندھ پولیس)

اس کھیپ میں شامل موبائل فونز میں جہاں آئی فون کے جدید اور مہنگے ماڈلز موجود تھے، وہیں مختلف معروف کمپنیوں کے اینڈروئیڈ فون بھی بڑی تعداد میں پائے گئے۔ عمومی مارکیٹ میں ان فونز کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں، خصوصاً آئی فون کی نئی یا پرو سیریز کی قیمت سرکاری درآمد اور ٹیکسوں کے بعد چار سے چھ لاکھ روپے تک جا پہنچتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ نان کسٹم فونز بلیک مارکیٹ میں نسبتاً کم قیمت پر دستیاب ہونے کے باعث خریداروں کی توجہ حاصل کر لیتے ہیں، کیونکہ ان کی قیمت سرکاری ماڈلز کے مقابلے میں ہزاروں روپے کم ہوتی ہے۔
اسی طرح مڈ رینج اینڈروئیڈ فونز جیسے سام سنگ، اونر، اوپو اور ژیاؤمی کے جدید ماڈلز کی قیمت پاکستان میں ٹیکسز کی وجہ سے 70 ہزار سے دو لاکھ روپے تک ہوتی ہے، لیکن یہی فون غیرقانونی طور پر لائے جانے کی صورت میں بلیک مارکیٹ میں تقریباً 15 سے 20 فیصد کم قیمت میں فروخت ہوتے ہیں۔
پاکستان میں پی ٹی اے رجسٹریشن کی بڑھتی ہوئی لاگت بھی نان کسٹم فونز کی مانگ میں اضافے کا باعث بنی ہے، کیونکہ غیررجسٹرڈ فون بلیک مارکیٹ میں بغیر کسی دستاویز یا قانونی تقاضے کے فوری فروخت ہو جاتے ہیں، جس سے نہ صرف خرید و فروخت آسان ہو جاتی ہے بلکہ سمگلرز کو بھی مستقل منافع ملتا رہتا ہے۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ ’پکڑی جانے والی اس کھیپ میں شامل بعض آئی فون ماڈلز کی فی یونٹ قیمت بلیک مارکیٹ میں ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے تک ہے، جبکہ امپورٹ ٹیکس ادا کرنے کی صورت میں یہی قیمتیں کئی گنا بڑھ جاتی ہیں۔ یہی مالی فائدہ سمگلرز کو اس غیرقانونی کاروبار کی طرف راغب کرتا ہے۔‘

آئی فون کی نئی یا پرو سیریز کی قیمت سرکاری درآمد اور ٹیکسوں کے بعد چار سے چھ لاکھ روپے تک جا پہنچتی ہے۔ (فائل فوٹو: پکسابے)

پولیس کی کارروائی اور آگے کا لائحہ عمل

موچکو پولیس کے مطابق ملزمان سجاد اور نور حسن سے تحقیقات جاری ہیں اور ابتدائی تفتیش میں سامنے آیا ہے کہ وہ کچھ عرصے سے یہ کام کر رہے تھے اور ہر چند روز بعد نئی کھیپ کراچی پہنچاتے تھے۔ پولیس نے ان سے برآمد ہونے والی آلٹو کار بھی تحویل میں لے لی ہے، جو موبائل فونز کی ترسیل کے لیے استعمال کی جا رہی تھی۔
ایس ایس پی کیماڑی امجد احمد شیخ نے بتایا کہ اس نیٹ ورک کے دیگر کارندوں تک پہنچنے کے لیے مزید کارروائیاں شروع کر دی گئی ہیں۔ موبائل فونز کی بلیک مارکیٹ سے تعلق رکھنے والے چند افراد کی نشاندہی بھی سامنے آئی ہے جن کے ذریعے یہ غیررجسٹرڈ فونز کراچی کی مختلف مارکیٹوں میں سپلائی کیے جاتے تھے۔

سمگلنگ کے معاشی اثرات

نان کسٹم موبائل فونز کی بے تحاشا آمد نہ صرف قانونی درآمد کنندگان کے کاروبار کو متاثر کرتی ہے بلکہ ملکی خزانے کو بھی بھاری نقصان پہنچاتی ہے۔ پاکستان میں موبائل کسی بھی شخص کے نام رجسٹرڈ کیے بغیر استعمال نہیں ہو سکتا، مگر غیرقانونی سیٹ مختلف طریقوں سے مارکیٹ میں چلائے جاتے ہیں جس سے ٹیکس چوری میں اضافہ ہوتا ہے۔
اقتصادی ماہرین کے مطابق صرف موبائل فونز کی سمگلنگ سے سالانہ اربوں روپے کا ٹیکس نقصان ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بلیک مارکیٹ کی موجودگی سے قانونی درآمد کنندگان اپنا کاروبار بند کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، جس سے ملک میں روزگار کے مواقع بھی کم ہو جاتے ہیں۔

 

شیئر: