کراچی ایئرپورٹ پر مسافر سے 20 پاسپورٹس برآمد، انسانی سمگلر کیسے کام کرتے ہیں؟
جمعرات 20 نومبر 2025 15:57
زین علی -اردو نیوز، کراچی
پاکستان کے کراچی ایئرپورٹ پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی حالیہ کارروائی نے ملک میں انسانی سمگلنگ کے بڑھتے ہوئے خطرات، سفری دستاویزات کی دھاندلی اور سادہ لوح شہریوں کے استحصال کے سنگین مسئلے کو ایک بار پھر نمایاں کر دیا ہے۔
ایران جانے والے ایک مشکوک مسافر کی تلاشی کے دوران بڑی تعداد میں پاکستانی پاسپورٹس کی برآمدگی نے نہ صرف حکام کو چونکا دیا بلکہ انسانی سمگلنگ کے پورے نیٹ ورک کی سرگرمیوں پر مزید سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ یہ کیس اپنی نوعیت کے اعتبار سے نہایت اہم تصور کیا جا رہا ہے کیونکہ برآمد شدہ دستاویزات اور ملزم کے ابتدائی بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کوئی انفرادی کارروائی نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک منظم گروہ ہو سکتا ہے جو بڑے پیمانے پر نوجوانوں اور مزدور طبقے کو غیرقانونی راستوں کے ذریعے بیرون ملک بھجوانے میں ملوث ہے۔
’20 پاکستانی پاسپورٹس برآمد ہوئے‘
ایف آئی اے امیگریشن نے بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب کراچی ایئرپورٹ پر ایران جانے والے مسافر ریاض حسین کو اس وقت حراست میں لیا جب وہ وزٹ ویزے پر بین الاقوامی پرواز کے ذریعے بیرون ملک روانہ ہونے والا تھا۔
ایف آئی اے کے ترجمان نے اردو نیوز کو بتایا کہ معمول کی چیکنگ کے دوران ریاض حسین نامی مسافر کے سامان میں غیرمعمولی دستاویزات کی موجودگی پر شک گزرا جس کے نتیجے میں اس کی مکمل تلاشی لی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ ’تلاشی کے دوران اس کے قبضے سے 20 پاکستانی پاسپورٹس برآمد ہوئے، جنہیں دیکھ کر حکام نے ان پاسپورٹ کے بارے میں پوچھ گچھ کی۔ ان پاسپورٹس کے ساتھ ساتھ ملزم کے پاس ایرانی ویزا ایپلیکیشن فارم اور جعلی ڈرائیونگ لائسنس بھی موجود تھے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ممکنہ طور پر انسانی سمگلنگ کے ایک بڑے نیٹ ورک کا حصہ ہے۔‘
ایف آئی اے حکام کے مطابق ’ابتدائی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی کہ ریاض حسین، جو کہ سندھ کے علاقے سانگھڑ کا رہائشی ہے، بھاری رقوم کے عوض پاکستانیوں کو غیرقانونی طریقے سے ایران منتقل کرتا رہا ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ ہر مسافر سے فی کس دو لاکھ 50 ہزار روپے وصول کرتا تھا اور انہیں غیرقانونی راستوں کے ذریعے ایران پہنچانے کا جھانسہ دیتا تھا۔ تاہم گرفتاری کے وقت اس کے پاس موجود پاسپورٹس کے سلسلے میں وہ ایف آئی اے حکام کو مطمئن نہ کر سکا، جس کے بعد اسے مزید تفتیش کے لیے اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکل کراچی منتقل کر دیا گیا۔‘
انسانی سمگلر کیسے کام کرتے ہیں؟
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں غربت، بے روزگاری اور بیرون ملک بہتر معاشی مواقع کی خواہش انسانی سمگلروں کو سازگار ماحول فراہم کرتی ہے۔ یہ ایجنٹ مختلف علاقوں کے سادہ لوح افراد کو بہتر مستقبل، زیادہ آمدن اور بیرون ملک آسان زندگی کے خواب دکھا کر ان سے بھاری رقم بٹورتے ہیں۔ یہ لوگ خود کو ایجنٹ، ویزا کنسلٹنٹ یا بیرون ملک بھجوانے والے ماہر کے طور پر پیش کر کے عوام کا اعتماد حاصل کرتے ہیں۔
انسانی سمگلنگ میں ملوث گروہ عام طور پر ایسے علاقوں کا رخ کرتے ہیں جو معاشی طور پر کمزور اور سہولتوں سے محروم ہوتے ہیں۔ وہاں وہ نوجوانوں کو نشانہ بناتے ہیں جو غربت، بے روزگاری اور معاشی دباؤ کے باعث بیرون ملک جانے کی شدید خواہش رکھتے ہیں۔ یہی خواہش ان ایجنٹوں کے لیے موقع پیدا کرتی ہے، جو خود کو قانونی ویزا فراہم کرنے والے ماہرین یا کنسلٹنٹس کے طور پر پیش کر کے لوگوں کو اپنے جال میں پھنساتے ہیں۔
یہ سمگلر سادہ لوح افراد کو مختلف جھوٹے وعدوں کے ذریعے قائل کرتے ہیں کہ ایران، ترکی یا یورپ جانا نہایت آسان ہے اور چند ہی دنوں میں انہیں بہتر روزگار، رہائش اور مستقل سیٹلمنٹ فراہم کر دی جائے گی۔ ان کا بات چیت کا انداز، اعتماد اور جھوٹی کہانیاں متاثرین کو یہ یقین دلا دیتی ہیں کہ بیرون ملک پہنچتے ہی حالات فوراً بدل جائیں گے۔
ان چیزوں سے متاثر ہو کر جب متاثرہ افراد غیرملکی سفر کے لیے تیار ہو جاتے ہیں تو سمگلر ان سے بھاری رقوم کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہر شخص سے کئی لاکھ روپے لیے جاتے ہیں، اور اکثر اوقات لوگ یہ رقم ادا کرنے کے لیے اپنے گھریلو زیورات فروخت کر دیتے ہیں یا قرض اٹھاتے ہیں۔ یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے جہاں متاثرین مالی طور پر بھی مکمل طور پر ان گروہوں کے رحم و کرم پر آ جاتے ہیں۔
رقوم وصول کرنے کے بعد سمگلر جعلی پاسپورٹس، ویزے، ورک پرمٹ یا ڈرائیونگ لائسنس تیار کرتے ہیں۔ بعض اوقات وہ دوسرے شہریوں کے اصل پاسپورٹس بھی اپنے قبضے میں رکھتے ہیں اور انہیں مختلف افراد کو استعمال کے لیے دیتے ہیں۔ اس تمام عمل میں دستاویزات کی جعل سازی، شناخت چھپانے اور امیگریشن قوانین کی خلاف ورزی جیسے سنگین جرائم شامل ہوتے ہیں۔
جب کاغذات تیار ہو جاتے ہیں تو متاثرین کو غیرقانونی اور انتہائی خطرناک راستوں کے ذریعے بیرون ملک بھیجنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایران کے پہاڑی علاقوں، ترکی کی جنگلاتی گزرگاہوں اور بحیرہ روم کے غیرمحفوظ پانیوں سے گزرتے ہوئے مسافروں کو نہ صرف اپنی جان کا خطرہ لاحق ہوتا ہے بلکہ سخت موسم، بھوک، پیاس اور راستے کی دشواری بھی انہیں شدید اذیت میں مبتلا کرتی ہے۔ متعدد واقعات میں ایسے افراد اپنی منزل تک پہنچنے سے پہلے ہی جان کی بازی ہار جاتے ہیں، جبکہ جو بچ جاتے ہیں وہ اکثر انسانی سمگلروں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں یا دوسرے ممالک میں پھنس سجاتے ہیں۔
یہ پورا سلسلہ ایک منظم نیٹ ورک کے تحت چلایا جاتا ہے، جس میں ایجنٹس، سہولت کار، جعلی دستاویزات بنانے والے افراد اور بیرون ملک موجود ساتھی شامل ہوتے ہیں۔ ایف آئی اے اور دیگر ادارے ایسے نیٹ ورکس کے خلاف مسلسل کارروائیاں کر رہے ہیں، مگر غربت اور لاعلمی کے باعث یہ سلسلہ ابھی تک پوری طرح ختم نہیں ہو سکا ہے۔
پاکستان میں مسافروں کی چیکنگ مزید سخت
گذشتہ چند برسوں میں غیرقانونی سفر کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، جس کے بعد پاکستان نے فضائی، زمینی اور سمندری راستوں پر مسافروں کی چیکنگ کو مزید سخت کر دیا ہے۔ خاص طور پر بڑے بین الاقوامی ایئرپورٹس پر بائیومیٹرک سکینرز، ڈیجیٹل ویری فکیشن، پاسپورٹ ریکارڈ کی فوری جانچ اور مسافروں کے سفری پس منظر کی گہری سکریننگ کا نظام نافذ کیا گیا ہے۔
ایف آئی اے امیگریشن نے متعدد جعلی پاسپورٹس، دھاندلی زدہ ویزا فارم، جعلی ورک پرمٹ اور انسانی سمگلنگ میں استعمال ہونے والی دیگر دستاویزات پکڑی ہیں۔ ادارے کے مطابق پاکستان سے ایران، ترکی اور مشرقِ وسطیٰ تک جانے والے غیرقانونی راستوں کا استعمال روکنے کے لیے وفاقی حکومت نے نئی پالیسیز بھی تشکیل دی ہیں۔ اس سلسلے میں چیکنگ سخت کرنے کا مقصد نہ صرف غیرقانونی سفر کی روک تھام ہے بلکہ انسانی جانوں کے ضیاع سے بچاؤ بھی ہے۔
وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی کا لاہور ایئرپورٹ کا دورہ
انسانی سمگلنگ کے بڑھتے ہوئے خطرات اور مسافروں کی نگرانی کے موجودہ نظام کا جائزہ لینے کے لیے وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے لاہور انٹرنیشنل ایئرپورٹ کا اچانک دورہ کیا۔ اپنے دورے کے دوران انہوں نے امیگریشن کا پورا عمل خود دیکھا، مسافروں کے دستاویزات کی جانچ کے طریقہ کار کا مشاہدہ کیا اور ایف آئی اے اہلکاروں سے پوچھا کہ کن مراحل پر دھاندلی کی امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
وزیرِ داخلہ نے ایئرپورٹ حکام سے کہا کہ انسانی سمگلنگ ملک کی ساکھ کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے، لہٰذا کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ انسانی سمگلر نہ صرف عوام کے مستقبل سے کھیلتے ہیں بلکہ پاکستان کو عالمی سطح پر بھی بدنام کرنے کا باعث بنتے ہیں، اس لیے ان کے خلاف کارروائی مزید تیز کی جائے۔
