Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ہماری سیاست سے دور رہیں،‘آسٹریلیا کے سابق وزیرِاعظم کی نیتن یاہو کو تنبیہ

آسٹریلیا کے سابق وزیرِاعظم میلکم ٹرنبل نے اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو سے کہا ہے کہ وہ آسٹریلیا کی سیاست سے دور رہیں۔
سابق آسٹریلوی وزیراعظم  کی جانب سے نیتن یاہو کو یہ تنبیہ اس وقت سامنے آئی جب اسرائیلی رہنما نے فلسطین کو تسلیم کرنے کے معاملے کو بونڈائی بیچ میں ہونے والی فائرنگ سے جوڑا۔
اتوار کی شام یہودی تہوار کی تقریبات کے دوران باپ اور بیٹے کی فائرنگ سے پندرہ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
نیتن یاہو نے کہا تھا کہ آسٹریلیا کے اس سال کے آغاز میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے فیصلے نے حملے سے قبل کے ہفتوں میں ’یہود دشمنی کی آگ پر تیل ڈالنے‘ کا کام کیا۔
برطانیہ کے چینل 4 نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے، میلکم ٹرنبل نے کہا کہ ’میں احترام کے ساتھ نیتن یاہو سے کہنا چاہوں گا کہ براہِ کرم ہماری سیاست سے دور رہیں۔‘
’اگر آپ اس قسم کے تبصرے کریں گے تو اس سے کوئی مدد نہیں ملے گی … اور یہ درست بھی نہیں ہے۔‘
ٹرنبل نے موجودہ آسٹریلوی وزیرِاعظم انتھونی البانیز کی حکومت کی حمایت کی، جس نے اگست میں کئی دیگر مغربی ممالک کے ساتھ فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا تھا، جب غزہ کی جنگ کے باعث بین الاقوامی دباؤ بڑھ رہا تھا۔
بونڈی حملے کے بعد ایک خطاب میں نیتن یاہو نے کہا تھا کہ ’چند ماہ قبل میں نے آسٹریلیا کے وزیرِ اعظم کو خط لکھا تھا کہ آپ کی پالیسی یہود دشمنی کی آگ پر تیل ڈالنے کے مترادف ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا تھا کہ یہود دشمنی ایک سرطان ہے جو اس وقت پھیلتا ہے جب رہنما خاموش رہتے ہیں۔
میلکم ٹرنبل نے کہا کہ دنیا کے بیشتر ممالک فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کرتے ہیں اور اس تنازع کے دو ریاستی حل کی حمایت کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آسٹریلیا ایک نہایت کامیاب کثیرالثقافتی معاشرہ ہے اور وہ غیر ملکی تنازعات کو اپنے ملک میں درآمد ہونے کی اجازت نہیں دے سکتا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ مشرقِ وسطیٰ کی جنگیں ہوں یا دنیا کے کسی اور حصے کی، وہ یہاں آ کر نہ لڑی جائیں۔ ان کو آپس میں جوڑنے کی کوشش، جیسا کہ نیتن یاہو نے کیا ہے، مددگار نہیں بلکہ اس کے بالکل برعکس ہے جو ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔‘
وزیرِ اعظم انتھونی البانیزی سے پوچھا گیا کہ آیا فلسطین سے متعلق ان کی پالیسی اور بونڈائی حملے کے درمیان کوئی تعلق ہے تو انہوں نے بھی نیتن یاہو کے تبصروں کو مسترد کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ ’دنیا کی بھاری اکثریت مشرقِ وسطیٰ میں آگے بڑھنے کے لیے دو ریاستی حل کو ہی واحد راستہ سمجھتی ہے۔ یہ قومی اتحاد کا لمحہ ہے، جہاں ہمیں اکٹھا ہونا چاہیے … ہمیں یہودی برادری کے افراد کو گلے لگانا چاہیے جو اس وقت غیر معمولی طور پر مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔‘
البانیزی نے ہسپتال میں اس شخص کی عیادت بھی کی جنہیں حملہ آوروں میں سے ایک کو قابو کرنے پر ہیرو قرار دیا گیا۔
احمد الاحمد، ایک دکاندار جو 2007 میں شام سے آسٹریلیا منتقل ہوئے تھے، اس وقت ہسپتال میں زیرعلاج ہیں۔
البانیزی نے منگل کے روز کہا کہ حملہ آور، ساجد اکرم اور ان کے بیٹے نوید، داعش کے نظریے سے متاثر تھے۔

شیئر: