Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

" یا خالد کہاں ہیں تمھارے والد "مولانا صاحب کا مخصوص انداز بہت بھاتا

صبح اسمبلی میں قومی ترانہ میرے چھوٹے سے ذہن کو بہت متاثر کرتا جب بنگالی لڑکیاں بینڈ کی دھن میں اردو میں قومی ترا نہ پڑھتیں تو ایک سرور پورے جسم میں سرایت کر جاتا
* * * خالد مسعود ، ریاض* * *
(تیسری قسط)
بچپن کی یادیں اور ماضی کے واقعات اس طرح ذہن میں نقش ہیں کہ کسے یاد رکھوں کسے بھول جائوں۔ جب بہت چھوٹا تھا تو والد صاحب نے گرلز اسکول میں پرائمری کلاس میں داخل کرادیا۔کلاس میں داخل ہونے سے پہلے اسمبلی لگتی۔ سینئر کلاس سے کسی بچی کو تلاوت قرآن کی دعوت دی جاتی۔ بینڈ کی دھن پر پاکستان کا قومی ترا نہ لہک لہک کر پڑھا جاتا پھر ہم کلاس میں داخل ہوتے ۔یہ روزانہ کا معمول تھا مجھے یہ اتنا اچھالگتا کہ اسکول ہمیشہ پہلے پہنچنے کی کوشش کرتا کہ اسمبلی چھوٹ نہ جائے ۔
ویسے بھی تاخیر پر آنے سے ٹیچر کلاس میں داخل ہونے نہیں دیتی تھیں اور ہم دروازے پر کھڑے ’’دیدی آشی ،دیدی آشی‘‘ کی رٹ لگاتے رہتے۔صبح اسمبلی میں قومی ترانہ میرے چھوٹے سے ذہن کو بہت متاثر کرتا جب بنگالی لڑکیاں بینڈ کی دھن میں اردو میں قومی ترا نہ پڑھتیں تو ایک سرور پورے جسم میں سرایت کر جاتا۔ حب الوطنی کاجذبہ دل میں موجزن ہوجاتا۔پاکستان دل و دماغ میں سمایا رہتا پھر دادی کی کہانی یاد آتی جو صعوبتیں پاکستان بننے کی صورت میں برداشت کی تھیں ۔قائداعظم محمد علی جناح کا قوم پر احسان ہے کہ انکی لیڈر شپ میں اور ہمارے آباء وا جداد کی لاکھوں قربانیوں کے صلے میں یہ ملک پاکستان حاصل کیا اور ہم نے آزادی کی فضا میں آنکھ کھولی۔ میرے گھر کے ساتھ ہی مسجد تھی۔
اسی راستے سے گزرکر میں اسکول جاتا ۔ایک دن اسکول جاتے ہوئے مسجد کے پیش امام مولانا مصطفی کوثر امجدی نے مجھے دیکھتے ہی اپنے مخصوص انداز میں آواز لگائی۔۔ " یا خالد کہاں ہیں تمھارے والد " وہ جب بھی مجھے دیکھتے اسی انداز میں پوچھتے انکا اسطرح پوچھنا مجھے بہت اچھا لگتا۔ ایک دن مولانا صاحب نے پوچھ لیا کہ تم نے کیا اسکول جانا شروع کر دیا ؟ تم نے تو قرآن پڑھا ہی نہیںپھر تمھیں اسکول میںکیسے داخل کردیا۔
مولانا صاحب نے اباجان سے بات کی۔اباجان کاخیال تھا قرآن کی تعلیم کیلئے کو ئی حافظ قرآن سے بات کرلیں گے جو گھر پر آکر پڑھا دیا کریں گے اس طرح دونوں تعلیم ساتھ ساتھ چلتی رہے گی۔۔مولانا صاحب نے ابا کو توجہ دلائی کہ بچے کو پہلے مدرسے میں داخل کردیں اسطرح بچے کو دینی ماحول کیساتھ بہت کچھ سیکھنے کا موقعہ بھی ملے گا۔ جب قرآن مکمل ہو جائے پھر اسکول میں داخل کردیں اور پھر اس طرح ہم تینوں بھا ئی اسکول سے مدرسہ جانا شروع کردیا۔ مدرسہ چونکہ گھر کے قریب والی مسجد میں قائم تھا اسلئے گھر سے نکلتے ہی مسجد پہنچ جاتے۔مسجد میں فرشی نشست تھی ۔
مدرسہ مولانا مصطفی صاحب کی سرپرستی میں قائم تھا اور ہمارے استاد ایک ضعیف مولوی صاحب ایک لمبی چھڑی لئے بیٹھے ہوتے جو ہر بچے کے پہنچ تک ہوتی۔مولوی صاحب کی نظر ہر بچے پر ہوتی کسی بچے کی بھی پڑھائی سے ذرا توجہ ہٹتی تو مولوی صاحب اپنی جگہ بیٹھے ہوئے اس چھڑی سے اسے خبردار کر دیتے۔مولوی صاحب کی اکثر اونگھتے ہوئے انکی آنکھ لگ جاتی تھی ۔ایسے میں کچھ بچے باہر نکل کر کھیلنا شروع کردیتے ایک مرتبہ اسی طرح مولوی صاحب کی آنکھ کھلی تو دیکھا تو کچھ بچے غائب تھے انھیں بلوایا گیا۔پھر آ ئو و دیکھا نہ تائو سب کی پٹا ئی کردی انکی بھی جو مدرسے میں موجود تھے۔ میرے 2 چھوٹے بھا ئی طاہراور شفیق نے تو گھر آکر ابی جان اور دادا جان سے شکایت بھی کی کہ اب ہم مدرسے نہیں جائیںگے مولوی صاحب نے ہماری بلاوجہ پٹائی کی ہے۔
اللہ مولانا مصطفی کوثر امجدی کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اب مجھے اکثر خیال آتا ہے کہ میری ابتدائی دینی اور قرآنی تعلیم ان کی ہی مرہون منت ہے۔مولانا صاحب حمد ونعت بھی خوب لکھتے تھے۔ راجشاہی میں جب بھی کبھی محفل میلاد کی محفل ہوتی مولانا صاحب ابا کے ساتھ مجھے بھی لے جاتے ۔مولانا صاحب عشق رسول صلعم میں ڈوبے ر ہتے اور محفل میلاد میں اپنی لکھی ہوئی نعت مجھ سے ترنم سے پڑھواتے۔۔
 نہ جنت نہ باغ ارم چاہتا ہوں،مدینہ خدا کی قسم چاہتا ہوں
 اور
اشدالا من الاموت کیا ہے بتا دوں،یہی ہے یہی انتظار مدینہ
شہر میں کسی کے یہاں موت ہوجاتی تو قرآن خوانی کا اہتمام ہوتا اور قرآن پڑھوانے کیلئے ہمارے مدرسے کی خدمات لی جاتیں اور ہم سب گروپ کی شکل میں بہت شوق سے جاتے کہ قرآن خوانی کے بعد مزے مزے کی چیزیں کھانے کوملتیں۔مجھے تو گورنمنٹ کالج انگریزی کے پروفیسر سلطان الاسلام صاحب کبھی نہیں بھولتے جو اپنے گھر پر ہر ماہ قرآن خوانی کا اہتمام کرتے اور تواضع بھی خوب کرتے۔ ہمیں ان کے گھر پر قرآن خوانی کا بڑی بے چینی سے انتظار رہتا کہ ہمیں ابلے انڈے سموسے اور مٹھائیاں کھانے کو ملیں گی۔
ہمیں اس قران خوانی سے ایک فائدہ ضرور ہوا کہ ہماری قرآن کی دہرائی ہوگئی اور پڑھنے میں روانی آگئی۔ جب ہم نے قرآن مکمل کرلیا تو جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا کہ ہمارا داخلہ راجشاہی مسلم ہا ئی اسکول میں ہو گیا ۔ ہمارا اسکول گھر سے کافی فاصلے پر تھا ہم اسکول پیدل ہی جاتے ۔اس زمانے میں اسکول کی نہ کوئی وین ہوتی تھی اور نہ ہی کوئی گاڑی۔۔زیادہ تر بچے کتابیں اپنے ہاتھوں میں اٹھائے رکھتے جو تعداد میں اچھی خاصی ہوتی تھیں۔ بستے چند امیر گھرانوں کے بچوں کے پاس ہوتے تھیں۔۔
(باقی آئندہ)

شیئر: