Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’مسٹر ماحول‘‘

***شہزاد اعظم***
ہم لال اسکول کی پکی جماعت میں اپنے گھر سے لائے ہوئے ٹاٹ پر پھسکڑا مارکر بیٹھے تھے۔ مس شکیلہ ابھی آئی نہیں تھیں ، ان فارغ لمحات میں ہم پانچ دوستوں میں بحث شروع ہوگئی کہ سب سے بڑا استاد کون ہوتا ہے۔ ایک دوست کا کہنا تھا کہ سب سے بڑا استاد ڈنڈا ہوتا ہے ، وہ سب کچھ سکھا دیتا ہے ، ایک دوست کا کہنا تھا کہ سب سے بڑا استاد باپ ہوتا ہے ، ایک نے کہا ماں ہوتی ہے ،ایک نے کہا ہمارے لئے تو سب سے بڑی استانی مس شکیلہ ہیں۔ ہمیں آج جو کچھ بھی آتا ہے ، سب انہی کا سکھایاہوا ہے۔ 2کا پہاڑا انہو ں نے رٹایا، الف بے انہوں نے یاد کرائی، اے بی سی ڈی انہوں نے ازبر کرائی ورنہ ہمیں تو یہ بھی خبر نہیں تھی کہ سیدھا یا دایاں ہاتھ کونسا ہوتا ہے۔ اس دوست کی بات ہمارے دل کو لگ رہی تھی مگر اسی دوران ایک مخالف دوست نے کہا کہ عجیب بات کر رہے ہو۔پہاڑا میرے ابا نے مجھے سکھا دیا تھا، تمہارے ابو نے اسے مس شکیلہ کی ذمہ داری اس لئے قرار دے دیا ہوگا کیونکہ انہیں خود پہاڑا یاد ہی نہیں ہوگا۔ اسی اثناء میں مس شکیلہ کمرہ ٔ جماعت میں داخل ہوئیں۔ وہ ہمیں بحث کرتے اور شور مچاتے دیکھ کر آگ بگولہ ہوگئیں۔ انہوں نے آئو بھی دیکھا اور تائو بھی دیکھا مگر سب کچھ نظر انداز کر کے اپنا سینڈل اتار کرہم سب کی چھترول شروع کر دی۔ منصف المزاج تو وہ ہمیشہ سے تھیں اس لئے انہوں نے ہم پانچوں دوستوں کو کل 10جوتے مارے، یوں ہر دوست کے ’’مقدر ‘‘ میں 2،2 سینڈل آئے۔ ہماری ’’جوتیانہ اصلاح‘‘ سے فارغ ہو کر انہوں نے تختہ سیاہ صاف کرنے والے ڈسٹر سے اپنے پائوں کا تلواصاف کیا۔سینڈل پہنا اور کرسی پر براجمان ہوگئیں ۔ ان کا غصہ کافی کم ہو چکا تھا۔ ہم نے موقع غنیمت جانا اور ان سے استفسار کیا کہ مس! یہ بتائیںدنیا میں انسان کا سب سے بڑا استاد کون ہوتا ہے؟ انہوںنے فرمایا کہ ماحول سب سے بڑا استاد ہے ۔ مس شکیلہ کا جواب سن کر ہم سب دوستوں کی پہلے تو سٹی گم ہوئی اور اسکے بعد اپنی کم عقلی پر پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا۔ مس شکیلہ نے ہمیں خاموش رہنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ مجھے دوسرا سینڈل اتارنے پر مجبور نہ کیاجائے۔
ہم ڈر کے مارے خاموش ہوگئے۔ اُس رو ز کے بعد سے ہم نے اپنے ذہنِ رسا کے تعاون سے اپنے ارد گرد کے ماحول کو ہی اپناسب سے بڑا استادِ محترم تسلیم کرنا شروع کر دیامگر دل یہ سمجھاتا کہ آپ کو یہ عالمگیر حقیقت ماحول نے خود آکر تو نہیں بتائی کہ جناب میں ماحول ہوں اور آپ مجھے اپنا سب سے بڑا استاد سمجھیں، یہ سچائی تو آپ کو مس شکیلہ نے بتائی تو سب سے بڑی استانی تو مس شکیلہ ہوئیں ناں؟ہم نے اپنے دل کی دلیل کو کسی ترمیم کے بغیر من و عن مان لیا مگر ایک کچوکہ ہمیں اکثر و بیشتر تڑپا کے رکھ دیتا تھا کہ اگر سب سے بڑی استانی مس شکیلہ ہیں تو سب سے بڑا استاد کون ہوا؟ہم اس خیال کے ہاتھوں اکثر و بیشتر جز بز ہو جایا کرتے تھے۔ اسی حال میں کچھ عرصہ گزرا،ہم بمشکل چھٹی میں  پہنچے تو مس شکیلہ نے6 دن کی چھٹی لے لی۔ ہم نے لال اسکول کی ہیڈ مسٹریس سے پوچھا کہ مس شکیلہ نے ایک نہ دو، اکٹھی 6دن کی چھٹی کیوں لے لی۔ کہیں وہ ہم سے ناراض تو نہیں ہوگئیں؟ انہوں نے ہماری بات کا جواب دینے کی بجائے مس شکیلہ کی درخواست ہمارے سامنے رکھ دی جس میں لکھا تھا کہ میں اب کسی کی ہونے جا رہی ہوںجس کیلئے مسلسل6 روز تک جشنِ عروسی منایاجائے گا ۔ اس دوران  ’’مایوں، مہندی، شادی ، ولیمہ ، چوتھی اور چالے ‘‘جیسی محافل مسرت و شادمانی کا مسلسل انعقاد ہوگا،ان کا باعث اور مہمان خاص میں ہی ہوں گی چنانچہ اسکول آنے سے قاصر رہوں گی ،اس لئے ہو کر مجبورمیری چھ روز کی چھٹی کی جائے منظور۔ 
مس شکیلہ کی یہ درخواست پڑھ کر ہمارے ذہن میں متعدد سوالات نے سر اٹھالیا مگر ایک سوال کا جواب ہمارے رگ و پے میں اس طرح سرایت کر گیا جیسے کھولتے پانی میں برف کی ڈلی۔ہمارے ذہن ِ شناسا نے دلِ ناشناس کو سمجھایا کہ مس شکیلہ سب سے بڑی استانی تھیں ناں، اب ان کے شوہر نامدار سب سے بڑے استاد قرار پائیں گے اور پتا ہے مس شکیلہ کے شوہر کا نام کیا ہے، ان کا نام ہے ’’ماحول‘‘۔
آج کئی دہائیاں گزرنے کے بعد بھی ہم اسی لکیر کے فقیر ہیں کہ سب سے بڑی استانی ’’مس شکیلہ‘‘ اور سب سے بڑا استاد ’’مسٹر ماحول‘‘ہی ہوتا ہے باقی سب دھوکا ہے ۔
ہم مزید بڑے ہوئے تو ہمارے بڑے بھائیوں کی شادیاں ہوگئیں،سب بھائیوں کیلئے ان کی بیویاں یعنی ہماری بھابیاں بھی آگئیں ۔ ہماری خالہ جو بلحاظ عمر ہم سے 8سال چھوٹی تھیں، ان کی بھی شادی ہوگئی۔ پھر یوں ہوا کہ ہم یکے بعد دیگرے اپنے بھتیجے بھتیجیوں کے چچا بننا شروع ہوگئے۔خالہ زاد بھائی کو بھی ہم نے گود میں کھلایا۔ ان سب بچوں نے ماحول سے بہت کچھ سیکھا جس میں پتنگ اڑانا، گلی ڈنڈا کھیلنا،چھن چھپائی، چور سپاہی، جھوٹ بولنا، دھوکا دینا، دوسرے کا مزاق اڑانا، گھٹیا قسم کے نام رکھنا، دکھاوا کرنا، دوسرے کو احساس کمتری میں مبتلا کرنے کی کوشش کرنا، نقل کرنا اور اغیار کی اندھی تقلید وغیرہ شامل تھا۔ ہم ماحول کے دیئے ہوئے انہی اسباق کے مطابق زندگی گزارتے گزارتے یہاں تک پہنچے ہیں۔ہمارے بعد آنے والی نسل نے بھی ماحول سے ہی سیکھا اور اس کے بعد آنے والی نسل بھی ماحول سے ہی سیکھ رہی ہے۔یہ بات کس حد تک حقیقت ہے ، اس کیلئے ہم مختصر سی آپ بیتی پیش کرتے ہیں۔ پہلے اسے توجہ سے پڑھئے اور پھر اتنی صداقت و ایمانداری سے اس کا جواب دیجئے کہ آپ کو آئین پاکستان کے آرٹیکل6کے مطابق سچا اور امانتدار قرار دیاجا سکے ۔ عرض ہے کہ ہم چند روز پہلے وطن میں ایک دوست کے ہاں مدعو تھے۔ کھانا شانا کھا کر بیٹھک میں چائے پی رہے تھے ۔ خواتین تو کسی دور دراز کے کمرے میں محو گفتگو تھیںمگر بیٹھک سے متصل کمرے میں سارے بچے یکجا تھے ۔ وہاں سے تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد ایک ’’شرابہ‘‘ بلند ہوتا اور پھر خاموشی طاری ہوجاتی۔یہ سلسلہ 35منٹ تک تو جاری رہا پھر ایک بچی کے رونے کی آواز آنی شروع ہوئی ۔ جب وہ حد سے زیادہ بلندہوتی تو ایک’’ نیم مردانہ‘‘ آواز اسے خاموش کرانے کی کوشش میں کہتی’’ چپ کر جا، نہیں تو ایک تھپڑماروں گا۔‘‘ وہ پھر رونا شروع کر دیتی۔ ہم سے رہا نہ گیا ، دوست سے کہا کہ اس بچی سے پوچھ لیں کہ آخر اس نے سب کا ناطقہ کیوں بند کر رکھا ہے ۔ دوست نے ہماری بات مانی اور ساتھ والے کمرے میں گئے۔ ہم بھی ان کے ساتھ ہو لئے ۔انہوں نے اپنے چھوٹے بیٹے سے پوچھا کہ تم نے بہن کو کیوں رُلا رکھا ہے ؟ اس نے کہا کہ ابو! ہم چاروں کھیل رہے تھے، اس کی ساری گوٹیاں پُگ گئیں،یہ اول آگئی ، اب ہم 3باقی رہ گئے تو اس نے چیخیں مار مار کر رونا شروع کر دیا کہ ’’مجھے کیوں نکالا، مجھے کیوں نکالا۔‘‘ اب آپ ہی بتائیں میں اسے کیسے سمجھاؤں؟ مجھے کیوں نکالا تو ایسا سوال ہے کہ اس کا جواب 20کروڑ عوام نہیں دے سکے تو میں کیسے دے سکتا ہوں؟ہمارے دوست فرمانے لگے ’’دیکھا ناں، مس شکیلہ نے صحیح کہا تھا ناں کہ ہمارا سب سے بڑا استاد ماحول ہے۔ دیکھ لیجئے آج میری چھوٹی بیٹی ماحول کا سکھایا ہوا سبق ہی دہرا رہی ہے کہ ’’مجھے کیوں نکالا۔‘‘
 

شیئر:

متعلقہ خبریں