اسلام آباد...وزیر دفاع خرم دستگیر نے واضح کیا ہے کہ سعودی عرب میں پاکستانی فوجی دستہ بھیجنے کا مقصد یمن جنگ میں الجھنا نہیں ، صرف سعودی سیکیورٹی اہلکاروں کو تربیت دینا ہے۔ سینیٹ میں پالیسی بیان دیتے ہوئے وزیردفاع نے کہا کہ اس وقت 1600پاکستانی فوجی سعودی عرب میں تعینات ہیں۔ وزیراعظم نے تربیت اور مشاورت کیلئے مزید ایک ہزار فوجیوں کی تعیناتی کی منظوری دی ۔انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کو فراہم کی جانے والی معاونت جاری مدد کا تسلسل ہے۔ یہ اپریل 2015ء کے مشترکہ پارلیمانی قرارداد کی حدود وقیود کے مطابق ہے۔خرم دستگیر نے کہا کہ تربیتی اور مشاورتی دستہ ابھی سعودی عرب روانہ نہیں کیا گیا۔ چیئر مین سینیٹ رضا ربانی نے خرم دستگیر کے جواب کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہا کہ جو باتیں انہوں نے بتائی ہیں یہ ایوان پہلے سے جانتا ہے۔ یہ بتائیں کہ مزید بھیجے جانے والے فوجیوں کو سعودی عرب میں کہا ںتعینات کیا جائےگا اور وہ وہاں کریں گے کیا؟۔ وزیر دفاع نے کہا کہ سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کا دفاعی تعاون 5دہائیوں پر محیط ہے ۔ اپنے فوجیوں کے تحفظ کے لئے تعیناتی کے مقام نہیں بتا سکتے۔ چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ اس کےلئے وہ بند کمرے کا اجلاس طلب کرسکتے ہیں ۔ وزیر دفاع نے اصرار کیا کہ یہ معلومات دینا ا میرے لئے مشکل ہوگا ۔خرم دستگیر نے بتایا کہ چونکہ پاکستانی افواج کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران پہاڑوں پر جنگ کا تجربہ ہے اور وہ اس میں مہارت حاصل کر چکی ہیں اسلئے سعودی افواج کو اسی حوالے سے تربیت دیں گی۔ 1982 ءکے پروٹول میں یہ بات واضح ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے 2015ءکی پارلیمنٹ کی قرارداد سے تجاوز نہیں کیا۔ جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان، یمن کے معاملے پر غیر جانبدار رہے گا۔