جیری ماہر ۔ الوطن
خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی زیرقیادت سعودی عرب خطے میں ایران کے ناخن کاٹنے اور اسکے دہشتگردانہ منصوبے کو ناکام بنانے نیز مشرق سے لیکر مغرب تک عرب ممالک کے دارالحکومتوں پر قبضہ جمانے والے منصوبوں کو ناکام بنانے میں سرخرو ہوا۔
سعودی عرب نے ہر سطح پر ایران سے ٹکر لی۔ یمن میں عسکری ، اقتصادی اور دیگر علاقوں میں سیاسی محاذوں پر ایران کا سامنا کیا۔ عراق، لبنان اور شام میں ایران کو تباہ کن پالیسیاں جاری رکھنے سے روکا۔سعودی عرب نے افغانستان، شام اور عراق میں تکفیری تنظیموں کی مدد سے دہشتگردانہ ولایت الفقیہ نظام قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہونے دیا۔
سعودی عرب یمن کے علاقوں کے دفاع کیلئے عرب اتحاد کی قیادت کررہا ہے۔ سعودی عرب نے کبھی بھی ایران کو اس بات کی ا جازت نہیں دی کہ وہ کسی عرب ملک میں پوری طرح سے دندناتا پھرے۔ سعودی عرب نے ایران کو لگام لگانے کیلئے حال ہی میں یمن پر اربوں ڈالر خرچ کئے۔ یمنی عوام کو انسانی امداد فراہم کی۔ مختلف اقتصادی و انسانی خدمات کی فراہمی میں ادنیٰ فروگزاشت سے کام نہیں لیا۔ یمن کے سینٹرل بینک کو سہارا دیا۔ ما¿رب کو اطراف کے علاقوں سے جوڑنے کیلئے ہوائی اڈے کا منصوبہ پیش کیا۔ یمن میں سعودی سفیر محمد الجابر کی زبانی اسکا اعلان کرایا گیا۔ یہ سب اس سچائی کا روشن ثبوت ہیں کہ سعودی قیادت اور عوام یمنی بھائیوں سے دلی لگاﺅ رکھتے ہیں اور انہیں بہتر خدمات فراہم کرنے میں ادنیٰ فروگزاشت سے کام نہیں لیتے۔
سعودی عرب فی الوقت یمن، عراق،لبنان اور شام کو ایران کی گرفت اور اسکی ملیشیاﺅں کے تسلط سے بچانے اور نجات دلانے کیلئے خلیج عربی میں سرتوڑ کوششیں کررہا ہے۔ سعودی عرب نے اپنی خارجہ پالیسی کی بدولت عراق کو اپنے قریب کیا۔ اس سے ایران اپنے اہم اتحادی سے محروم ہوگیا۔ سعودی عرب نے عراق او راسکے عوام کو تشدد اور فرقہ وارانہ جھگڑوں کے بھنور سے نکالنے کا سامان پیدا کیا۔ خادم حرمین شریفین نے عراقی عوام کو شاندار اسٹیڈیم کا تحفہ پیش کیا۔ یہ اسٹیڈیم پورے علاقے کا سب سے بڑا ہوگا۔ اس پر ایک ارب ڈالر سے زیادہ خرچ ہونگے۔
سعودی عرب نے نہ صرف یہ کہ مذکورہ کارنامے انجام دیئے بلکہ عربوں کے حقوق و مسائل کی بابت مختلف ممالک کی خارجہ پالیسی میں یگانگت کا مشن بھی چلایا۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے اس حوالے سے بڑے نمایاں کام انجام دیئے۔ امریکہ ، ایران کیساتھ ایٹمی معاہدے سے علیحدہ ہوگیا اور دہشتگرد ی کے حامی نظام ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کردیں۔ اس سے شام پر بھی اثرات پڑنے لگے ہیں۔ ایرانی ملیشیاﺅں اور عسکری مشیران کو ریف، حلب اور جنوبی شام سے نکلنا پڑ رہا ہے۔ جلد ہی پورا شام ایران اور اسکی ملیشیا©ﺅں سے سعودی مساعی کی بدولت پاک و صاف ہوجائیگا۔ جہاں تک لبنان کا معاملہ ہے تو بعض لوگ سمجھ رہے ہیں کہ سعودی عرب اسے دہشتگرد تنظیم حز ب اللہ کے ہاتھوں میں یرغمال کے طور پر چھوڑے رکھے گا۔ یہ بات درست نہیں ۔ اسکے برعکس زیادہ صحیح ہے۔ سعودی عرب لبنان کو عرب دنیا کا اٹوٹ حصہ بنانے بلکہ بحال کرنے کیلئے خاموشی سے کام کررہا ہے۔ سعودی عرب کی کوشش ہے کہ سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 1559اور 1701 موثر ہو۔ حزب اللہ پر پابندی عائد کی جائے۔ اسے اپنے ہتھیار لبنانی حکومت کے حوالے کرنے پر مجبور کیا جائے۔ اسے عربوں کے اندرونی امور میں مداخلت سے روکا جائے۔ جو شخص آج کے لبنان پر ایک نظر ڈالے گا اور پھر اسکا مقابلہ 2005ءکے ماقبل والے لبنان سے کریگا تو اسے یہ بات اچھی طرح سے معلوم ہوگی کہ اگر کوئی عرب ملک ایرانی انارکی کا حصہ بن جاتا ہے تو ہر سطح پر اسے کیا کچھ نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ 40لاکھ خلیجی ہر سال لبنان سیاحت کیلئے جایا کرتے تھے جس سے لبنان کی معیشت کو بڑا سہارا ملتا تھا، اب صورتحال مختلف ہے۔
سعودی عرب خطے میں ایرانی دہشتگردی کو لگام لگانے اور خطے کے استحکام کا ذمہ دار کل بھی تھا اور آج بھی ہے۔ جو شخص بھی وطن عزیز کیلئے امن و سلامتی اور صلاح و فلاح چاہتا ہو اُسے سعودی عرب کے کاررواں کا ہمسفر بننا ہوگا، ایران کے دھماکہ خیز کاررواں سے نکلنا ہوگا ۔ ایران کے فرقہ وارانہ فتنوں کے شر سے خود کو اور ہموطنوں کو محفوظ کرنا پڑیگا۔ سعودی عرب اپنے فرمانروا شاہ سلمان اور عزم و آرزو کے امین شہزادہ محمد کی زیر قیادت ایران کو لگام لگائے رکھنے کا عمل جاری رکھے گا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭