Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مصطفی کمال اور عمران کے لئے آخری موقع

کراچی (صلاح الدین حیدر ) انتخابی مہم پورے عروج پر ہے ۔جلسے ، جلوس ،ٹیلی ویژن پر اشتہارات سب ہی کچھ ۔ ساتھ ساتھ، ن لیگ ،پیپلزپارٹی کی طرف سے بلاول کی تصویر اور بیان اور پی ٹی آئی کے عمران خان بھی تشہیر میں مصروف۔ظاہر ہے، جب الیکشن میں2 ہفتے بھی نہیں رہ گئے تو ایسا ہی ہوگا اگر پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے لوگ کچھ زیادہ پُر اُمید نظر نہیں آتے، تو مصطفی کمال اور عمران خان کے لئے بھی ےہ آخری موقع ہے ۔انگریزی کامقولہ ہے ”مارو یا مر جاﺅ“ کے سوا چارہ بھی نہیں ۔ چندد ن پہلے لاہور اور اسلام آباد سے میرے کچھ صحافی دوست کراچی آئے تھے۔ ان سب کا یہی تجزیہ تھا کہ عمران کی گڈی بہت اُونچی اڑ رہی ہے۔لاہور میں 6 میں سے 4نشستیں قومی اسمبلی کی پی ٹی آئی جیتنے کی پوزیشن میں ہے۔عمران اور سعد رفیق کا کوئی مقابلہ نہیں۔ اسی طرح علیم خان اور سابق اسپیکر ایاز صادق کے درمیان مقابلہ تو ہے لیکن علیم خان جن کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے کا پلڑا بھاری نظر آتاہے ۔پی ٹی آئی کی دوسری امید وار ڈاکٹر شمس النساءکے بارے میں اتنے وثوق سے فی الحال نہیں کہا جاسکتا۔ مریم تو مقابلے سے بہت باہر ہوگئیں۔ مبصرین کے مطابق یہ ان کے حق میں اچھا ہوا کیونکہ انکی کامیابی کے امکانات کم تھے۔ویسے بھی وہ والد اور والدہ کی نشست این اے 120جو کہ اب این اے 125ہوگیا ، کو تبدےل کرکے این اے 127سے لڑنا چاہتی تھیں تو پھر تو ےہی اندازہ ہے کہ انہیں کامیابی پر شبہ ہے، صحےح لگتا ہے لیکن اندازے غلط بھی ہوسکتے ہیں۔ آخری ووٹ کے گنے جانے تک کچھ نہیں کہا جاسکتا۔عام تصوریہی ہے کہ نواز اور مریم کے جیل جانے کے بعد شہباز شریف بڑے بھائی کا نعم البدل نہیں بن سکتے۔ نواز کی اپنی اپیل تھی، شہباز کو وہ مقام ابھی حاصل نہیں ہوسکتا گوکہ خادم عالی ، جو خطاب انہوںنے خود چنا تھا یاہمدردوں کی طرف سے دیا گیا۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت میں دورے اور جلسے تو روز ہی کررہے ہیں لیکن گُن نواز کے گاتے ہیں۔ظاہر ہے کہ نواز شریف کی مقبولیت اپنی جگہ ہے اور وہ آج بھی ہیرو ہیں ۔ کچھ دبی دبی آوازیں ایسی بھی سننے میں آتی ہےں کہ عمران نے پیرنی اور مقبروں پر جو زور دینا شروع کیا ہے وہ ان کے لیے سود مند ثابت نہیں ہوگا لیکن پاکستان کے دیہی علاقوں میں سادہ لوح لوگ مسجدوں میں خطبات اور وعظ وغیرہ سے بھی بے انتہا متاثر ہوتے ہیں۔مولوی حضرات کا رول دیہی علاقوں میں بہت اہم ہے، اس لیے شاید لوگوں کا اعتراض کہ عمران خان کو مہذبیت کی بجائے سیکولر کلچر پر زور دینا چاہےے۔ پڑھے لکھے اور دانشوروں کے نزدیک تو سہی ہو سکتاہے لیکن فرسودہ عقائد اور غیر پڑھے لکھے لوگوں میں دینی جوش وخروش ہوتا ہے۔ عمران اکثر مبصرین کی رائے میں نواز لیگ پر ہاوی نظر آتے ہیں اور معروف تجزیہ نگار مظہر عباس نے یہاں تک لکھ دیا کہ عمران کے لےے راہ تیزی سے ہموار ہورہی ہے، نواز کے بار ے میں تو یہ شعرہی فی الحال کافی ہیں کہ صبح کے تخت نشین شام کو مجرم ٹھہرے۔ہم نے تیزی سے نصیبوں کو بدلتے دیکھا۔ یہ دلیل کہ نواز اور مریم جیل میں رہ کر سیاسی طور پر مزید طاقتور ہوجائیںگے،ہوسکتا ہے سہی ہو لیکن بقول غالب: کون جیتا ہے تیری زلف کے سحر ہونے تک۔ پرانے اقوال آج بھی اقوال زریں میں ہی شمار ہوتے ہیں۔ جہاں تک مصطفی کمال کا معاملہ ہے، تو وہ جوانی کے جوش میںپُر عزم دکھائی دیتے ہیں۔اپنی پاک سر زمین پارٹی کو ملک کی مقبول ترین جماعت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ 3 سال خود ساختہ جلاوطنی کے بعد وہ وطن وا پس لوٹے تو قدرت نے انہیں انمول موقع فراہم کردیا۔متحدہ قومی موومنٹ جس کے سائے میں انہوں نے سیاسی تربیت حاصل کی تھی، ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی اور پی ایس پی کو موقع مل گیا کہ وہ مہاجر یا اردو بولنے والوں کے ووٹ پر انحصارکرسکے۔ مصطفی کمال اور ان کے ساتھی مہاجر کارڈ سے فائدہ اٹھانے کے بجائے اس سے دور رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہوسکتاہے ان کا فیصلہ سہی ہو ۔ 1988اور 2000تک ایم کیو ایم الطاف حسین کی چھتری تلے انتخابات جیتی تھی ،اب یہ سایہ ختم ہوگیا۔خود ایم کیوایم مشکلات کاشکار ہے۔ ایسے میں عام خیال تو یہی ہے کہ کراچی کی 20قومی اسمبلی کی نشستوں کے حصے بخرے ہوجائیں لیکن مہاجروں کو پیپلز پارٹی کے دیئے ہوئے زخم تازہ ہیں،ان سے بے وفائی کی گئی، انہیں ان کے جائز حق سے محروم رکھا گیا تو پھر مایوسی اور محرومی کچھ تو رنگ لائے گی۔ ہوسکتاہے مہاجر طبقہ لسانی بنیادوں پر ہی ووٹ ڈالے، یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ الطاف حسین کی واٹس ایپ ویڈیوز وائرل ہوتے ہی بائیکاٹ ہوجائے اور الطاف کے چاہنے والے گھروں سے نہ نکلیں تو پھر نتیجہ ظاہر ہے کچھ اور ہی ہوگا۔بظاہر تو عمران اور پی ایس پی میں فضا ہموار نظر آتی ہے۔اگرا یسا نہیں ہوا تو عمران اور مصطفی کمال دونوں ہی شاید دوبارہ موقع سے فائدہ اٹھا سکیں۔ واللہ عالم بالصواب ۔
مزید پڑھیں:دھاندلی ہوئی تو نتائج تسلیم نہیں کریں گے،شہباز شریف

شیئر: