Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

۔۔اور ریڈیو پاکستان کی عمارت بچ گئی

***سید شکیل احمد***
گزشتہ روز ٹیلی فون کی گھنٹی بے وقت بجی ۔اللہ خیر کا کلمہ پڑھ کر جو ٹیلی فون اٹھایا  تو دوسری جانب سے ایک پر انے دوست کی شنا سا آواز تھی۔ ہمت تو نہ تھی کہ ان سے استفسار کیا جا تا کہ اتنی رات گئے ہاتف کو کیو ں زحمت دی گئی۔ بہر حا ل ان کو بھی احسا س تھا ،فوراًمدعے پر آگئے کہ کہیں آرام میں خلل تو نہ پڑا ۔اب اس کا کیا جواب بنتا ؟بہر حال کہا :نہیں، کوئی زحمت نہیں ہوئی ،تکلیف نہیں ہوئی، آپ نے یاد کیا اچھا لگا ۔ وہ بولے اس وقت پر یشانی میں گھر ا ہو اتھا کہ آپ یا د آگئے ۔ رات کے کتنے پہر گزر گئے اس کا احساس نہ ہو ا اور آپ کو فون کھڑکا دیا۔ انھیں جو اب دیا کوئی بات نہیں فون ہی تو کھڑکایاہے کو ئی جر م نہیں۔ کیا کہنے لگے کہ جی البتہ ہم بھی کھڑک گئے ہیں۔ وہ کیسے؟ کہا کہ ایک کروڑ ملا زمتیں عطا کر نے والوں نے ریڈیو پاکستان کے معاہدتی ملا زمین کو کھڑکا دیا ہے۔ آج کا سار ا دن اپنے بچو ں سے پھڈا رہا کہ یہ سب ان کا ہی کیا دھرا ہے کہ خود بھی لائنو ں میں لگ کر اور ہم ضعیف العمر والو ں کوبھی لائنو ں میں پہر و ں کھڑا کر کے نئے پاکستان کے لیے ووٹ ڈلوایا ۔اب یہ حشر ہے کہ بچت یا خسارے کو پو را کر نے کے نام پر کبھی ہیلی کاپڑ فروخت کر نے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے تو کبھی گاڑیاں بیچی جا رہی ہیں تو کہیں بھینسیں بیچ کر خسارہ پورا کیا جا رہا ہے۔ اب تو یہ حالت ہوگئی ہے کہ ریڈیو پاکستان کی مرکزی عما رت کو لیز پر دیا جا رہا ہے اور تو اور جن افراد کو پر انے پاکستان والو ں نے کنٹریکٹ پر نو کریا ں فراہم کی تھیں ان کو فارغ کیا جارہا ہے۔ سوچتا ہو ںکہ کل پروانہ فراغت ملے تو پیٹ کے جہنم کو کس آگ سے بھریں گے۔ بچوں سے کہہ دیا ہے کہ جس خوشحالی اور ترقی کا خواب دکھا کے ووٹ دلو ایا تھا اب اسی ترقی اور خوشحالی کے خواب کو پورا کرنے کے لیے گھر کے ا خراجا ت کو پورا کر نے کا بندوبست کر و چنا نچہ آپ کو زحمت دی ہے کہ کہیں پر لکھنے لکھانے کا کا م دلو ا دیںتاکہ نیم روز ے اور نیم افطار کے بند وبست کی آس ہو جا ئے ۔ 
جن صاحب کا فون آیا تھا وہ ریڈیو پاکستان میں کا فی عرصہ سے کنٹریکٹ کی بنیا د پر اس آس میں کا م کر رہے تھے کہ کوئی تو سنہر ی دور آئے گاکہ بھاگ کھل جا ئیں گے اورمستقل ملا زمین کی فہر ست میں ان کا نا م لکھا جائے گا۔ وہ تو عارضی فہر ست سے بھی حرف غلط کی طر ح مٹنے لگا ہے ۔مو صوف سے کہا کہ دل چھوٹا نہ کر یں، حکومت ملک چلا نے کے لیے بند وبست کررہی اور تیزی کی ساتھ کر رہی ہے ، سب اچھا ہو جا ئے گا ، لیکن وہ اس با ت پر ایما ن لا نے کو تیار نہیں تھے۔ بولے: کیا اچھا ہو جا ئے گا ؟ گاڑیاں بیچ کر بھی بھلا نہ ہوا ،بھنسیں برائے فر وخت ہیں۔ اب توریڈیو پاکستان کی مرکزی عما رت کو بھی لیز پر دیا جا رہا ہے ۔کل کلا ںکہاجائے گاکہ وزیر اعظم ہاؤ س خالی پڑ ا ہے اس کو بھی لیز پر دیدیاجائے ۔
              تنقید کر نے والے کی بات تو دل کو لگتی تھی ،بستی بستے بستے بستی ہے ، یہ کوئی الف لیلوی کہانیاں نہیںہو تیں، اس کے لیے سو جتن کر نا پڑ تے ہیں،پا پڑ بیلنا پڑ تے ہیں تو کہیں آبادی ہو تی ہے۔ ریڈیو پاکستان کی اسلا م آباد میںمر کزی عما رت ایک شاندار عمارت ہی نہیں ایک تاریخ کی امین بھی ہے اور عوام سے نا تا جو ڑے رکھنے کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔ بعض افراد کا کہنا ہے کہ ریڈیو کی اس دور میں وہ اہمیت نہیں رہی جو کسی زمانے میں تھی، ایسا ہر گز نہیں۔ ریڈیو آج بھی اپنے پور ے جو بن کے ساتھ مو جود ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جس طر ح ماضی میںجیسے اہم قومی ادارو ں کو بے توجہی کا شکا ر کیا گیا، اس طر ح ریڈیو کے ساتھ بھی سوتیلی ما ں کا برتاؤ کیا گیا ۔ماضی میں بھی ریڈیو کا یہ سب سے عمدہ اعز از تھاکہ وہا ں زبان کی نو ک پلک کا بہت ہی دھیا ن  رکھا جا تا تھا۔ ماضی میں نو جو ان نسل خاص طور پر ریڈیو کی نشریا ت کے ذریعے اپنی زبان کے تلفظ اور اس کے قواعد کو درست کرتی تھی اور اب بھی اس کا معیار ویسا ہی جبکہ ٹی وی کا معیا ر۔  اس معاملے میں سوشل میڈیا کی زبان وبیان سے بھی گیا گزرا ہے ۔
ریڈیو پاکستان سے وابستہ صاحب کی فکر اپنی جگہ درست ہے  ۔ حکمرانوںکے بارے میں جویہ کہا جا تا ہے کہ وہ سیاسی قلا بازیاں جس طر ح کھا تے تھے اسی طر ح اب حکومت میں بھی ویسا ہی پلٹا کھا تے ہیں جس کو ان کے مخالفین نے یو ٹرن کا نا م دے رکھا ہے ۔کہا جا تا ہے کہ بعض اوقات ایسی عادات بھی کا م کی نکل آتی ہیں اگر پلٹاکھانا وتیرہ نہ ہوتا تو ریڈیو پاکستان کی عما رت نکل گئی تھی ، اسی پلٹنے کی وجہ سے بچ گئی ہے ۔
ویسے ان یوٹرن کی وجہ سے پاکستان کی ساکھ کو بیر ون ملک نقصان پہنچ رہا ہے کیونکہ یہ پلٹے اب مغربی دنیا میںبھی تنقید اور طنز کا نشانہ بنتے جا رہے ہیں۔ بر طانیہ کے ایک اخبار گارجین نے اپنی ایک حالیہ اشاعت میں لکھا کہ عمر ان خان کی حکومت نے30 دن کے اندر 16 پلٹے کھا ئے ہیں اور اخبار نے یہ16 پلٹے گنوائے بھی ہیں  تاہم ان لوگو ں کو معلو م نہیں کہ کئی معاملا ت میں کوئی پلٹانہیںکھایا گیا، مثلاًاپنے جگری یا ر زلفی بخاری کی تقرری کے بارے میں مستحکم مزاجی کا مظاہر ہ دیکھااور اپنے معاون کے طورپر ان کی تقرری کر ڈالی۔ اس میں کوئی پس وپیش نہیں کیا  حالا نکہ زلفی کی تقرری سے قبل خان صاحب کا مو قف تھا کہ زلفی بر طانو ی شہر ی ہیں۔ ان کا پاکستان سے کوئی لینا دینا نہیں۔ یا د رہے کہ جب خاں صاحب 2کر وڑ کا خرچہ کر کے عمر ہ کی ادائیگی پرجد ہ پر واز کرنے والے تھے تو ان کے ہم رکا ب زلفی بخاری کو اڑان کی اجازت نہیںملی چنانچہ خاں صاحب نے 4،5گھنٹے تک ان کی اجا زت کے حصول کی غر ض سے زلفی کے بغیر اڑان سے انکا ر کر دیا تھا ۔عمر ہ سے واپسی پر وہ نیب پر بہت غصے میں تھے چنانچہ ایک ٹی وی کو واپسی کے بعد انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ زلفی برطانوی شہر ی ہے۔ وہ بر طانیہ میں کامیاب کاروبار کرتا ہے۔ اس کا نا م آف شور کمپنی کی فہر ست میں آیا تو نیب نے ان کے نا م کی فائل کھول لی ۔خان صاحب کا کہنا تھا کہ وہ پو چھتے ہیں کہ جب کوئی شخص پاکستان کا شہر ی نہیں ، اس کا پاکستان میںکوئی کا روبار نہیں  بلکہ پاکستان کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں  تو نیب کو کیا حق یا اختیار ہے کہ اسکے خلا ف فائل کھول لے اور پو چھ گچھ کے لیے طلب کر نا شروع کر دے ۔ وہ برطانوی شہر ی ہے برطانوی حکومت جا نے اور اس کا شہر ی جانے ۔ اب خیر سے خان صاحب نے اس برطانوی شہر ی کو پاکستان کے وزیر مملکت کے عہد ے پر فائز کر دیا ہے ۔سیاسی حلقوں کی جانب سے تو کوئی احتجا ج نہیں ہوا البتہ تھو ڑا بہت ردعمل سامنے ضرور آیا مگر اب کیا کیاجائے! خان صاحب ملک کے مفاد میں کوئی کا م کر تے ہیں یا تو ان کو تنقید کا نشانہ بنا دیا جا تا ہے یا پھر اس میں رخنہ ڈالنا شروع کر دیا جاتا ہے کہ کوئی صاحب زلفی بخاری  کیخلاف سپریم کو رٹ پہنچ گئے ۔
 

شیئر: