Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جمہوریت مذاق برداشت نہیں کرتی!

***وسعت اللہ خان ***
اگرچہ بالغ رائے دہی یعنی ’’ ون مین، ون ووٹ‘‘ کا عملی اطلاق زیادہ سے زیادہ دو سو برس پرانا ہے۔جمہوریت کے جتنے بھی نقصانات گنوا دیں مگر ایک فائدہ ضرور ہے۔مری گری جمہوریت میں بھی ایک ریوالونگ ڈور ہوتا ہے جس کے ذریعے عوامی توقعات پر پورے نہ اترنے والے شخص کو پرامن طریقے سے باہر نکالا جا سکتا ہے یا توقعات پر پورے اترنے والے کو دوبارہ اندر آنے کا موقع مل جاتا ہے۔
مگر جمہوریت عوامی نبض پر مسلسل ہاتھ رکھے بغیر نہیں چل سکتی۔پھر بھی چلانے کی کوشش کی جائے تو وہ جمہوریت کے لبادے میں فسطائیت ہوتی چلی جائے گی اور اس جمہوری فسطائیت کو رواں رکھنے والے راہ نما انفرادی و اجتماعی سوچ کو آگے بڑھانے اور نئے تصورات کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے بذاتِ خودا سٹیٹس کے جوہڑ کا حصہ ہو جائیں گے اور خبر بھی نہ ہو گی کہ جسے وہ جمہوریت بتا رہے ہیں، وہ کسی بھی غیر جمہوری نظام کی طرح جامد و ساکت شے کے سوا کچھ نہیں۔
جمہوریت کو ہر وقت منا کے رکھنا پڑتا ہے۔ نخرے سہنے پڑتے ہیں۔نازک بدن ہوتی ہے۔ آپ زیادہ سختی سے پیش نہیں آ سکتے۔ مکمل توجہ مانگتی ہے۔ مسلسل لا پروائی برتی جائے تو اشاروں کنایوں اور رویوں سے وقتاً فوقتاً ناپسندیدگی کا اظہار کرتی رہتی ہے اور اگر تب بھی کوئی مسلسل اکتاہٹ برتے اور رویہ نہ بدلے تو پھر نرم و نازک حسین و مہربان دکھائی دینے والی اسی جمہوریت کو ڈائن یا ٹکیائی کا روپ دھارنے میں ذرا دیر نہیں لگتی۔
جمہوریت میں چونکہ ہر شخص کو احساس دلایا جاتا ہے کہ اس کے حقوق و فرائض برابری کے ہیں لہذا جب اسے برابری کی لت لگ جاتی ہے تو ذرا سی بھول چوک اور اغماض بھی طبیعت پر گراں گزرتا ہے اور اس کی جمہوری انا کو اگر مسلسل ٹھیس پہنچتی رہے تو پھر یہی انا اس سے پلٹ کر وار بھی کروا لیتی ہے۔عام آدمی بہت عجیب ہوتا ہے۔وہ اپنے رہنماؤں سے جتنا پیار کرتا ہے اتنی ہی نفرت بھی کر سکتا ہے اور نفرت اندھے فیصلے کروا لیتی ہے۔
لہذا یہ ذمہ داری جمہوریت اور مساوات کا جھنڈا بلند کرنے والوں کی ہے کہ وہ خود کو عقلِ کل سمجھنے کے تباہ کن خبط سے بچتے ہوئے عوام سے اپنے براہِ راست ناتے کے تار میں برقی رو مسلسل چیک کرتے رہیں اور عوام کو غصے اور نفرت کے راستے پر جانے سے پہلے ہی روک لیں۔جیسے گھر کے بڑے اپنے ناراض جذباتی بچوں کو سمجھا بجھا کر اور ان کے مزاج کی تبدیلی اور اتھل پتھل کے بنیادی اسباب سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے کوئی غیر عاقلانہ قدم اٹھانے سے روک لیتے ہیں۔
اگر بروقت ایسا نہ ہو تو پھر کوئی بھی ذہین و تیز طرار موقع پرست مجمع باز نباض جمہوریت کے میلے میں محسن کی وضع قطع بنا کے در آتا ہے اور طبقاتی و اجتماعی محرومیوں کو راتوں رات ختم کرنے ، لوگوں کو اچھے دن لوٹانے ، پرانی عظمتیں بحال کرنے اور بے بس کر دینے والے پھٹیچر نظام کے ڈھونگ سے نجات دلانے کا سفوف بیچنے لگتا ہے۔بھیڑ جوق در جوق جمع ہونے لگتی ہے۔اس کے کانوں کو اجنبی مسیحا کی وہ تمام باتیں بھلی لگنے لگتی ہیں جو وہ اپنے روایتی راہ نماؤں کے منہ سے سننے کو عرصہ ہوا ترس چکی ہے۔چنانچہ یہ بھیڑ ’’ ایک رات میںقوت بحال‘‘ جیسی مارکیٹنگ کے سحر میں آ کر ساحر کے پیچھے چل پڑتی ہے اور ساحر اپنی بانسری سے خوابوں کی مدھر دھنیں نکالتا مست بھیڑ کو کہیں بھی لے جا سکتا ہے اور جب لوگوں کی آنکھ کھلتی ہے تو عموماً وہ خود کو ایک اصلی باتصویر فسطائیت کے پنجرے میں قید پاتے ہیں۔جمہوریت سے راتوں رات جان چھڑائی جا سکتی ہے مگر فسطائیت جان لئے بغیر نہیں ٹلتی۔ پاپولرازم کے جادو گر لبادے میں چھپی فسطائیت تو اپنے ساتھ کئی نسلوں کا مستقبل بھی باندھ کے لے جاتی ہے۔
مثال کے طور پر جب جرمن جمہوریت کا عوام کے اصل مسائل سے ناتہ ٹوٹ گیا تو اسی نظام سے ہٹلر کا ظہور ہوا اور وہ شدید بحران زدہ جرمن معاشرے کو عظیم آریائی عظمت کے اڑن گھوڑے پر بٹھا کے لے گیا۔اس سے پہلے اٹلی میں مسولینی پیدا ہوگیا مگر جرمن اشرافیہ کے بوڑھے کانوں میں خطرے کی کوئی گھنٹی نہیں بجی۔
مصر میں جمال عبدالناصر عربوں کی تاریخی عظمت کی رتھ پر سوار راتوں رات نہیں آیا بلکہ اس کے پیچھے مصر کی نوآبادیاتی مزاج کی اسیر جمہوری اشرافیہ کی عشروں پر پھیلی مسلسل ناکامی اور اختیار کی میوزیکل چیئر گیم میں عام مصری کو تماشائی کے کردار سے زیادہ کچھ بھی نہ دینے کا سیاسی جرم کلیدی سبب تھا۔ پھر جمال عبدالناصر تو نہ رہا مگر اس کا کھانچہ سلامت رہا جس میں سادات اورمبارک فٹ ہوتے چلے گئے اور انہوں نے عرب قوم پرستی کی چادر بھی اتار پھینکی۔
بھارت میں جنتا نے نہرو خاندان کی دو نسلوں کو آزادی کے بعد مسلسل 28 برس سر آنکھوں پر بٹھایامگر جب 1975 میں نہرو کی بیٹی اندرا نے ایمرجنسی لگائی تو اگلے ہی انتخابات میں کانگریس کی کھٹیا کھڑی ہو گئی لیکن جب اندراگاندھی کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو اسی جنتا نے انہیں 1980 کے چناؤ میں پھر گلے لگا لیا۔مطلب یہ ہے کہ پبلک کو کبھی ہلکا نہیں لینے کا۔یہ پبلک ہے سب جانتی ہے لیکن کبھی کبھی پبلک کے ساتھ بھی ہاتھ ہو جاتا ہے۔
برطانیہ کی جمہوری اشرافیہ کو آج سے نہیں ہمیشہ سے ناز رہا کہ اس نے ایسا جمہوری میکینزم وضع کر لیا ہے جو عوام کی دھڑکنیں گننے کے لئے بہترین ہے مگر بریگزٹ کے نتائج نے بیچ چوراہے میں بتا دیا کہ وہ برطانوی جمہوری نظام جس کی دنیا بھر نے فخریہ نقالی کی وہ بھی ا سٹیٹس کو کے جوہڑ میں دھنس چکا ہے۔آنکھیں ہیں مگر صرف وہی دیکھ سکتا ہے جو دیکھنا چاہتا ہے۔کان ہیں مگر اسے اپنے سوا کوئی سنائی نہیں دیتا۔
تو کیا کروڑوں لوگ راتوں رات پاگل ہوگئے ؟ ہاں یہ پاگل ہوگئے کیونکہ ماں نے بچوں کی چیخ  سننے اور پھر سمجھنے کے بجائے کانوں میں روئی ٹھونس لی تھی۔ایک آؤٹ سائیڈر آیا ، مسکرایا ، ہاتھ پکڑا ،گلے لگایا اور لے گیا۔اب خورد بین لے کر اسبابی دانشوری بھگارتے رہئے۔ 
 
 

شیئر: