Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران انتہا پسندی کے خلاف صف آرا

کراچی (صلاح الدین حیدر ) عمران خان کو منصب اعلی پر براجمان ہوئے 3 ماہ ہوگئے لیکن بہت صبر کرنے کے بعد بلکہ وہ اس نئی مصیبت کے خلاف صف آراءہونے پر مجبور ہوگئے۔ انتہا پسند افراد کی تعداد جنرل ضیاءالحق کے زمانے سے بڑھتی ہی جارہی ہے اور یہ بھی عفریت کی شکل اختیار کر گئی۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ تحریک انصاف کی حکومت کو ان افراد پر جن کے خلاف آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے بھی کھل کر اظہار کیا کرنا ہوگی۔ عمران کے پاس کوئی اور چارہ تھا ہی نہیں وزیراعظم نے فیصلہ کر لیا کہ پاکستان میں اگر امن رکھنا ہے اور ملک کو ترقی کی راہ پر چلانا ہے تو ایسے تمام لوگوں کی سرکوبی کرنا پڑے گی۔ کام بہت مشکل ہے۔ پاکستان جیسے غریب ملک میں جہاں دیہات اور گاوں میں مسجد ایک اہم مقام رکھتی ہے، قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک لبیک پاکستان کے عہدے داروں کو مقید کر کے سرکاری مہمان خانے تک محدود کردیا گیا۔ پہلے 3 مہینے اور بعد میں 3 دن تک جب دھرنے سے شاہراہیں بند ہوگئیں، نظام زندگی مفلوج ہوگیا تو حکومت نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ کاروبار زندگی اگر متاثر یا بند ہوجائے تو لوگوں کی روزی پر اثر پڑتا ہے جب حکومت کے مشوروں کو نظر انداز کردیا گیا اور تحریک لبیک پاکستان نے 25 نومبر کو احتجاج کی کال دے دی تو مجبوراً حکومت کو اپنی حکمت عملی بدلنی پڑی۔ وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے تو یہ کہہ کر درجہ حرارت میں کمی لانے کی کوشش کی کہ ان کی گرفتاری سے آسیہ بی بی کا کوئی تعلق نہیں عوام کی نظر میں یہ محض بہانہ بازی ہے۔ لوگوں میں جان و مال کی حفاظت کے بارے میں تشویش ہے کہ ایک ایسا پاکستان جو اسلام کے نام پر امن و سلامتی کی خاطر بنایا گیا تھا مخالف سمت میں چل پڑا ہے جو کہ کسی بھی طرح ملکی مفاد میں نہیں۔ وزیراعظم اور ان کے رفقائے کار بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے خلاف ایک نیا محاذ کھڑا ہوجائے گا لیکن ملکی سلامتی کی خاطر تلخ فیصلے کرنے ہی پڑتے ہیں۔ 

شیئر: