Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جزیروں کے ملک انڈونیشیا میں4 روز(تیسری قسط)

***عبدالمالک مجاہد۔ریاض***
(گزشتہ سے پیوستہ)
کوئی 17,16سال پہلے کی بات ہے، میں چین میں ایجوکیشنل ٹوائز (بابا سلام ) بنوا رہا تھا۔ میرا شوق اور جنون تھا کہ میں بچوں کو قرآن پاک اور دعائیں سکھانے والا کمپیوٹر بناؤں۔ میں انجینئر تو نہیں مگر یہ کام شوق سے تعلق رکھتا ہے۔ چین کے ایک شہر چنگ شن میں ریڈ بوائے کے نام سے ایک کمپنی تھی۔ وہ ہمارے طریقے کے مطابق کمپیوٹر بنا رہے تھے۔ میں نے ایک چینی مسلمان عبدالکریم کو اپنا مستقل ملازم رکھا ہوا تھا جسے عربی اور تھوڑی بہت انگلش بھی آتی تھی۔
رِیڈ بوائے کی انتظامیہ نے ہمیں ایک کمرہ دے رکھا تھا۔ ہم ناشتہ کر کے آجاتے اور رات گئے تک کام کرتے رہتے۔ عبدالکریم میرا مترجم تھا تاہم کمپنی کا مالک مسٹر چن انگلش معقول بول لیتا تھا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ میں اس سے کچھ سوال کرتا اور اس کا جواب بالکل الٹا ہوتا۔دفتر میں کافی لڑکیاں بھی کام کرتی تھیںمگر ہمیں ان سے کیا لینا دینا تھا۔ ہم تو اپنے تجربات میں ڈوبے رہتے تھے۔ ایک دن میں نے دیکھا کہ ان میں سے ایک عورت جینی بڑی خوبصورت انگلش بول رہی ہے۔اس نے مجھے دیکھا تو کہنے لگی کہ مجھے آ پکی مدد کی ضرورت ہے۔ دراصل وہ بھی اسی قسم کا کمپیوٹر بنوا رہی تھی جو میں بنوا رہا تھا تاہم وہ چین سے تعلق رکھتی تھی اور مسلمان بھی نہیں تھی۔ بعد میں اس نے بتایا کہ وہ جکارتہ میں پیدا ہوئی ہے۔ اسکے پاس انڈونیشی اورچینی دونوں پاسپورٹ ہیں۔ اسکا خاوند بھی وہاں موجود تھا۔ جینی نے اپنی باتوں سے مجھے خاصا متاثر کیا۔ اس نے بتایا کہ وہ رمضان کے روزے رکھتی ہے۔ عیدالفطر پر مسلمان بچوں کیلئے گفٹ پیک بناتی ہے اور یتیم خانوں میں جا کر تقسیم کرتی ہے۔ عیدالاضحی پر بیل ذبح کر کے تقسیم کرتی ہے۔ میرا ڈرائیور مسلمان ہے۔ میں اس سے کہتی ہوں کہ میں گاڑی میں بیٹھتی ہوں تم جا کر جمعہ کی نماز ادا کر آؤ۔ اس طرح اس نے اور بھی خاصی باتیں بتائیں۔ میں نے اس سے کہا کہ یہ درست ہے کہ تم مسلمان نہیں مگر تمہاری روح میںاسلام رچا بسا ہے۔ ایک دن آئے گا تم ضرور اسلام قبول کر لو گی۔ میں نے اسے اسلام کی دعوت دی اور یہ کہا کہ اگر تم نے اسلام قبول کر لیا تو تم میری مسلمان بہن بن جاؤ گی اور میں تمہارا مسلمان بھائی ۔ اس نے اگلا سوال کیا کہ اگر میں اسلام قبول کرتی ہوں تو پھر میرا نام کیا ہو گا؟ میں نے اپنی والدہ صاحبہ کے نام پر اسے رضیہ بتایا۔ اب اس نے اپنے خاوند کا نام پوچھا کہ مسلمان ہونے کے بعد اس کا نام کیا ہو گا؟ میں نے ’’حسن‘‘ نام تجویز کیا۔ اسے قرآن کریم کے ڈیزائن اور دوسری اشیاء کی ضرورت تھی جو میں نے اسے مہیا کر دئیے۔
اس کا انڈونیشیا میں وسیع کاروبار تھا۔ مختلف شاپنگ مالز میں اس نے ایک سو سے زائدا سٹال کرایہ پر لے رکھے تھے۔ وہ وہاں پر اسلامی اشیاء فروخت کرتی تھی۔ میں ایک مرتبہ انڈونیشیا گیا تو اس کے اسٹالز دیکھے تھے کوئی ڈھائی تین سو سیلز گرل اس کے پاس کام کرتی تھیں۔ اس وقت اس کے 130اسٹالز تھے۔ پھر وقت آیا کہ میرا اس کے ساتھ رابطہ منقطع ہو گیا۔ میں بھی اپنے کاموں میں مصروف ہو گیا۔
میں نے انڈونیشیا جانے کا اردہ کیا تو جینی یاد آ گئی۔ عبدالغفار کو پوچھا تو اس نے اس کا فون نمبر ارسال کر دیا۔ معلوم ہوا کہ اس کا خاوند وفات پا چکا ہے ۔ کہنے لگی کہ میرے بیٹے کی شادی ہے ۔ آپ اگر فلاں تاریخ کو آ جائیں تو ملاقات ہوسکتی ہے۔ 
ایک دن کہنے لگی، برادر! اگر آپ چاہیں تو میں ایئرپورٹ پر آپ کو لینے آ سکتی ہوں مگر ہمارے پاس وقت نہ ہو گا۔ طے ہوا کہ ہم 10 نومبر کو سارا دن اس کے دفتر کو اور کاروبار کو دیکھیں گے۔ دس بجے اس کا ڈرائیور ہمارے ہوٹل پہنچ گیا۔ میں نے زندگی میں اتنی لگزری گاڑی میں پہلے کبھی سفر نہیں کیا تھا۔ڈرائیور جکارتہ کے مختلف علاقوں سے گزرتے ہوئے ایک پوش علاقے میں داخل ہوا۔ ایک نہایت خوبصورت بلڈنگ کے سامنے اس نے گاڑی روکی۔ ٹوٹی پھوٹی انگلش میں کہنے لگا کہ جینی کا دفتر آ گیا ہے۔ میں دفتر کو دیکھ کر مبہوت رہ گیا۔ بڑا ہی خوبصورت دفتر تھا۔ پہلے تو احساس ہوا کہ کہیں غلط جگہ پر تو نہیں آ گیا مگر ایک کونے میں قرآن کریم سکھانے والے کمپیوٹر دیکھ کر اطمینان ہو گیا کہ یہی اس کا دفتر ہے۔ ہم دفتر میں بیٹھے ہی تھے کہ جینی برادر السلام علیکم کہتے ہوئے داخل ہوئی۔ اس کی نئی شادی شدہ بہو بھی اس کے ساتھ تھی۔ اس نے میری اہلیہ کو ہاتھ جوڑ کر سلام کیا اور باتیں شروع کر دیں۔ میں اس کے لیے سعودی عرب سے اعلیٰ قسم کی کھجوریں لے کر گیا تھا ۔ اس نے اپنے مسیج میں مجھے مطلع کر دیا تھا کہ لنچ ہمارے دفتر میں ہو گا۔
اس نے اور اس کی بہو نے اہلیہ کو مختلف تحائف پیش کیے۔ میں بھی اس کے نئے شادی شدہ بیٹے اور بہو کے لیے گفٹ لے کر گیا تھا۔ کہنے لگی کہ کمپیوٹر کا کاروبار کچھ عرصہ سے بتدریج کم ہو رہا تھا۔ اس لیے میں نے کچن کی مشینیں بنوانا شروع کی ہیں۔ یہ چار منزلہ بلڈنگ تھی ۔اس کا رقبہ دو کنال سے زیادہ ہی ہو گا ۔ اس نے ایک منزل پر ذاتی رہائش بنا رکھی ہے۔ بلاشبہ اس نے گزشتہ دس سالوں میں بے مثال ترقی کی ہے۔ اس کا عملہ خواتین کو کچن کی چیزوں کی استعمال کی ٹریننگ دیتا ہے۔ ان اشیاء کا نام’’ Kitchen Applianxes‘‘ہے۔ اس کے اسٹاف نے ہمارے سامنے کتنی چیزیں تیار کر کے ہمیں کھلائیں۔ مجھے 2 چیزوں نے زیادہ متاثر کیا، ایک چھوٹی سی مشین میں اس نے مونجی ڈالی بٹن دبایا تو چند سیکنڈ کے بعد چاول نکلنے شروع ہو گئے۔ واقعی دو تین منٹ میں ایک کلو چاول آپ کے سامنے برتن میں نظر آئیں گے۔ میں نے پوچھا کہ چاول تو مارکیٹ میں وافر مقدار میں میسر ہیں۔ اس مشین کا کیا فائدہ۔ اس کا جواب یہ دیا گیا کہ یہ چاول بالکل طبعی ہیں۔ ان میں کسی قسم کے کیمیکل شامل نہیں ۔ امیر لوگ اپنی صحت کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ یہ مشین ان کے لیے بڑی مفید ہے۔ چھوٹی سی یہ مشین مجھے بڑی پسند آئی۔ ایک اور مشین کپڑے دھونے والی تھی۔ اس مشین کوآپ کرکٹ کے بلے کی طرح سمجھ لیں۔ بس اس سے ذرا چوڑی اور کم لمبی تھی آپ گھر میں کسی بھی بالٹی یا برتن میں ڈال کر اس میںواشنگ پورڈر ڈال دیں۔ اس مشین کواس بالٹی کے ساتھ لٹکا دیں۔ بجلی کے کنکشن سے جوڑ کر بٹن دبا دیں۔ کپڑے صاف ہونا شروع ہو جائیں گے یہ مشین عام واشنگ مشینوں کے مقابلہ میںخاصی سستی ہے۔ اس نے بیس کے قریب مختلف مشینیں بنائی ہیں جو کچن میں استعمال ہوتی ہیں۔ اس نے مجھے اشارہ کیا کہ بھائی چلیے میں آپ کو اپنی بلڈنگ کے دفاتر دکھاؤں۔ میں نے اہلیہ کو ساتھ لیا اور ہم اس کے پیچھے چل دئیے۔ یہ بلڈنگ اس کی اپنی ہے۔ اسی میں اس کی رہائش ہے بلڈنگ کو مختلف دفاتر میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ اسکا بھائی مکینیکل انجینئر ہے۔ اس سے بھی ملاقات ہوئی۔ اس نے اپنی کمپنی کا برانڈ بنایا ہے۔ خود اپنے بھائی کے ساتھ مل کر ان مشینوں کو چین میں تیار کروایا ہے۔ میں نے ورکشاپ دیکھی جس میں وہ دونوں بہن بھائی مل کر نئی مشینوں کا آئیڈیا بناتے ہیں۔ ایک منزل پر سیل کا شعبہ تھا جہاں لڑکیاں ٹیلی فون کے ذریعہ مشینیں سیل کر رہی تھیں۔ اکاؤنٹس کا شعبہ علیحدہ تھا۔ مینو فیکچر کرنے کیلئے ایک ہال میں جگہ بنی ہوئی تھی۔ نیچے بڑے بڑے اسٹور تھے۔ اسکے بقول ایک مشین ایسی بھی ہے جس کے 15سے 18کنٹینر وہ ہر ماہ فروخت کرتی ہے۔ گزشتہ 7,5سالوں میں اس نے حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ پارکنگ ایریا میں کافی تعداد میں ڈلیوری ٹرک کھڑے نظر آئے۔ میرے استفسار پر اس نے بتایا کہ یہ سارے ٹرک کمپنی کی ملکیت ہیں۔ میںنے اس کی عالی ہمت ہونے کو داد دی۔ اس کا ڈرائیور ہمارے اشارے کا منتظر تھا اور ہم واپس ہوٹل چلے گئے۔ ایک خاتون کا اتنا بڑا سیٹ اپ بنانا غیر معمولی کارنامہ ہے۔
اتوار کا دن میں نے سیر و سیاحت کے لیے مختص کر رکھا تھا۔ سعودی عرب اور انڈونیشیا کے اوقات میں 5گھنٹے کا فرق ہے۔ جب سعودی عرب میں صبح 5بجے ہوتے ہیں تو انڈونیشیا مین صبح کے دس بج رہے ہوتے ہیں۔ میں نے عبدالغفار سے کہا کہ مجھے کوئی عربی بولنے والا ڈرائیور مل جائے جس کی اپنی کار ہو تو سیر کا مزا آ جائے گا۔ وہ ہمیں بتا بھی سکے گا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔ جکارتہ سے کوئی 60 کلومیٹر کے فاصلہ پر بوگر (Bogor) نامی جگہ ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں کم و بیش ہر روز بارش ہوتی ہے۔ آج کل بارشوں کا موسم ہے۔ عرب لوگ اس شہر کو مدینۃ المطر کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ عبدالغفار نے علی نامی شخص کا فون نمبر ارسال کر دیا۔ کہنے لگا کہ یہ بھلا آدمی ہے ۔یہ آپ کے پاس صبح آجائے گا۔ عربی زبان بڑی عمدہ بولتا ہے۔ میں نے اسے فون کیا تو کہنے لگا میں صبح 10بجے ہوٹل کی لابی میںآپ کا انتظار کروں گا۔ میں نے گاڑی کا ماڈل پوچھا کہ کہیں وہ راستے میں خراب ہو جائے اور ہمیں کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس نے اپنی گاڑی کا ماڈل بتایا جو کافی پرانی تھی۔ کہنے لگا فکر نہ کریں وہ ہمیں بوگر لے بھی جائے گی اور لے بھی آئے گی۔ ہوٹل والوں کے پاس بھی سیاحت کا پروگرام تھا مگر اس کے لیے صبح 8بجے ان کے ہمراہ جانا ضروری تھا جو ہمارے لیے ممکن نہ تھا۔ ہم دس بجے کے قریب تیار ہو گئے کہ علی کا پیغام وصول ہوا میں اسوقت لابی میں ہوں۔ میں نے کہا تم گاڑی لے کر آؤ ہم کمرے سے نیچے اترتے ہیں۔ ہم نے دیکھا سرخ رنگ کی چم چم کرتی خوبصورت گاڑی ہمارا انتظار کر رہی ہے۔ علی نے مجھ سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا کہ آئیں تشریف لائیں۔ اس کیسا تھ اس نے گاڑی کا دروازہ کھول دیا۔ میں تو کسی پرانے ماڈل کی گاڑی کا تصور لیے ہوا تھا۔ اس نے خود ہی بات شروع کی کہ یہ گاڑی میری نہیں بلکہ عبدالغفار کی بیوی کی ہے۔ اسے جب معلوم ہوا کہ آپ لوگوں نے بوغر جانا ہے تو اس نے اپنی گاڑی آپ کیلئے بھجوا دی۔ہماری زبان سے الحمدللہ اور شکریہ کے الفاظ نکلے۔ علی ایک مشاق ڈرائیور ہے۔ بڑی اچھی عربی بولتا ہے۔ اس نے عربی کی تعلیم انڈونیشیا میں ہی حاصل کی ہے۔ حج اور عمرہ کی ایک کمپنی میں مؤ ظف ہے۔ دو بار حج کر چکا ہے۔ اور متعدد بار سعودی عرب عمرہ کیلئے جا چکا ہے۔ میں نے اس کی تنخواہ پوچھی تو میری توقع سے کہیں زیادہ تھی۔ آج اتوار کا دن تھا۔ اسے دفتر سے چھٹی تھی اس لیے عبدالغفار نے اس سے کہا کہ وہ آج کا دن ہمارے ساتھ گزارے ۔ رات میں نے اس سے فون پر کہا تھا کہ میں تمہیں 80ڈالرز دوں گاجس پر اس نے سکوت کا اظہار کیا تھا۔ ہماری کار کا رخ جکارتہ سے مغرب کی طرف بوگرشہر کی طرف تھا۔ شہر میں اتوار کی وجہ سے سڑکوں پر مقابلتا ًرش بہت کم تھا۔ میں آج سے25,20 سال پہلے انڈونیشیا آیاتھا تو میں نے اس شہر بوگر کی سیر کی تھی۔ اس زمانے میں تو بوگر کیلئے سڑک خالی تھی۔ بہت کم ٹورسٹ تھے۔ میں نے ہوٹل کی معرفت ایک ٹورسٹ کمپنی کا ٹکٹ لیا تھا۔ بڑے معقول پیسوں میں پورے دن کا ٹور جس میں دوپہر کا کھانا شامل تھا۔ اس زمانے میں سڑکوں کے کنارے دوکانیں اور ریسٹورنٹ زیادہ نہ تھے اس لیے بوگر تک کا راستہ اور مناظر بڑے دلکش تھے۔ دور حد نگاہ تک چائے کے باغات تھے جن میں خواتین روایتی انداز میں چائے کے پتے چن رہی تھیں۔ میں اس خوبصورت منظر کو آج تک نہیں بھولا۔ سڑک کے کنارے کیلے فروخت کرنے والے جگہ جگہ بیٹھے ہوئے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے کافی تعداد میں کیلے خریدے اور پوری بس میں تقسیم کر دئیے تھے۔ 
آج جب ہم بوگر جا رہے تھے تو مجھے وہ اتنے مناظر نہ دکھائی دئیے جتنے میں نے پہلی بار دیکھے تھے۔ اس کا سبب اب سڑک کے کنارے بہت ساری دوکانیں ، ہوٹل ، ریسٹورنٹ بن چکے ہیں۔ شہر میں رش تو نہ تھا البتہ جب ہم بوگر جانے کے لیے سڑک پر مڑے تو وہاں جانے والوں کا خاصا رش تھا، حد نگاہ تک گاڑیاں ہی گاڑیاں، جکارتہ جانے والی گاڑیوں کو پولیس نے روک رکھا تھا۔ علی کا کہنا تھا کہ اتوار کی وجہ سے بوگر جانے والوں کی بے حد کثرت ہوتی ہے۔ اس لیے ایک بجے تک جانے والوں کے لیے ون وے ٹریفک ہوتی ہے اور پھر جکارتہ جانے والوں کے لیے واپسی کا راستہ کھول دیا جاتا ہے۔ جہاں جہاں بلڈنگیں یا دوکانیں نہیں بنی تھیں وہاں سڑک کے دونوں کنارے ہریالی اونچے اونچے درخت اور درختوںکے درمیان سبز چائے کے باغات نظر آ رہے تھے۔ یہ مناظر بڑے ہی خوبصورت تھے۔ کم و بیش 60 کلو میٹر کا فاصلہ 2گھنٹے میں طے ہوا۔ ٹریفک چیونٹی کی چال سے چل رہی تھی تاہم باہر کے مناظر بڑے خوبصورت تھے۔ سیاح ان میں گم ہو جاتا ہے اس لیے وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ بوگر اور اس کے گرد و نواح میں تقریبا تیس لاکھ لوگ بستے ہیں۔ اس ملک پر گوروں نے بھی حکومت کی ہے۔ ان کے دور میں بوگر ان کا پایہ تخت تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس علاقے میں صدارتی محل بھی موجود ہے۔ اب سیاح لوگ اسے دیکھ بھی سکتے ہیں۔ ہمارے پاس چونکہ وقت کم تھا، یوں بھی صدارتی محل اس علاقے میں نہیں بوگر کے ایک دوسرے شہر میں تھا۔ مجھے شخصی طور پر باغات قدرتی مناظر اور بارش پسند ہے۔ ہم راستے کے مناظر سے محفوظ ہوتے بوگر کے سب سے اونچے مقام پر پہنچ گئے۔ اوپر پہاڑ پر بڑا خوبصورت ہوٹل تھا۔ ہم نے گاڑی پارک کی اور اندر چلے گئے۔ ہوٹل میں ایک وسیع کمرے کو مسجد میں تبدیل کیا گیا تھا۔ ہم نے وضو کیا۔ مسجد میں داخل ہوئے۔ مسجد بڑی خوبصورت اور وسیع تھی۔ وہاں پر رکھا ہوا ڈائس اس بات کی نشاندہی کر رہا تھا کہ یہاں خطبہ جمعہ بھی ہوتا ہے۔ میں نے اذان دی۔ اتنے میں کچھ ملازم بھی آ گئے۔ میں نے ہی جماعت کروائی۔ پہلے ظہر کی2رکعتیں پڑھائیں۔ ملازمین چونکہ مقامی افراد تھے، انہوں نے باقی دو رکعت اٹھ کر ادا کر لیں ۔میں اور علی نے عصر کی نماز بھی با جماعت ادا کر لی۔ ہوٹل سے باہر کا منظر نہایت خوبصورت تھا۔ سامنے پہاڑ تھے ۔ان کے درمیان خوبصورت وادی۔ گھنے درخت ، چائے کے باغات …سبحان اللہ میں نے آسمان کی طرف دیکھا، آسمان پر بادل چھا رہے تھے۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ یہاں دو تین بجے روزانہ بارش ہوتی ہے۔ میں نے باہر کا منظر دیکھنا چاہا، اتنے میں ہوٹل کے ملازمین اپنی اپنی نماز ختم کر کے آ گئے۔ انہوں نے ایک کمرے کو میرے لیے بطور خاص کھولا۔ وہاں بالکونی سے منظر اور بھی خوبصورت نظر آیا۔ میں چند منٹ تک ٹکٹی لگا کر اس منظر کو دیکھتا رہا۔ میں نے مؤظفین سے ایک رات کا کرایہ پوچھاتو وہ بالکل واجبی سا تھا۔ اس ہوٹل کو آپ تھری اسٹار ہوٹل کہہ سکتے ہیں تاہم وہ بڑا صاف ستھرا تھا۔ ہم ملازمین کے جلو میں لابی میں گئے تو بعض لوگ کھانا کھا رہے تھے۔ لنچ کا وقت ہو چکا تھا۔ میں نے باہر دیکھا تو بڑا سا برآمدہ نظر آیا جس کے چاروں اطراف کھلے تھے۔ ٹیبل کرسیوں پر بیٹھے بعض لوگ چائے پی رہے تھے۔ بعض کبابوں پر ہاتھ صاف کر رہے تھے۔ اتنے میں بادل ہمارے قریب آ گئے۔ اب وہ کرسیوں اور میزوں کے نیچے سے گزر رہے تھے۔ ساتھ ہی بارش شروع ہو گئی۔ اس برآمدے کی ڈیزائننگ اس طرح سے کی گئی ہے کہ کتنی بھی تیز بارش کیوں نہ ہو پانی آپ سے کچھ فاصلے پر رہے گا۔ آپ اس میں بھیگیں گے نہیں۔ اس موسم میں کافی پینے کا اپنا مزا ہے۔ میں نے کپ چینو کا آرڈر دے دیا۔ اتنے میں میری نظر ایک ٹیبل پر پڑے ہوئے چولہے پر گئی۔ میں نے پوچھا کہ یہ کیا ہے اور کیوں رکھا گیا ہے ۔ بتایا گیا کہ آپ کی ٹیبل پر آپ کے سامنے ہی کھانا تیار کریں گے۔ آپ گرما گرم کھانا کھاتے چلے جائیں گے۔ مجھے یاد آ گیا میں ایسا کھانا کھانے کا تجربہ چین میں کر چکا تھا۔ وہاں وہ گیس سلنڈر کو ٹیبل کے نیچے رکھ دیتے ہیں۔ ٹیبل میں بڑا سا سوراخ ہے جس کے اوپر چولہا اور اس پر کڑاہی رکھ دیتے ہیں۔ کڑاہی میں پانی، جس میں مرچ مصالحے ڈال دئیے جاتے ہیں۔ چند منٹوں میں پانی کھولنے لگ جاتا ہے۔ نمک مرچ لگے ہوئے گوشت کے باریک قتلے بالکل کاغذ جیسے ہی باریک کاٹ کر ایک پلیٹ میں آپ کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ آپ کے ہاتھ میں چمٹی تھما دیتے ہیں۔ آپ نے جیسے ہی گوشت کا ٹکڑا کڑاہی میں ڈالا تو دس پندرہ سیکنڈ میں وہ گوشت کھانے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ قارئین کرام! یہ اتنی مزیدار ڈش ہے کہ آپ اپنی فیملی یا دوستوں کے ساتھ مل کر اس کا تجربہ ضرور کریں۔ چونکہ گوشت پانی میں گلتا ہے اس لیے بھاری نہیں ہوتا۔ آپ کھاتے چلے جائیں گے۔ چین میں مسلمانوں کے ریسٹورنٹ میں سردیوں میں بطور خاص یہ ڈش پیش کی جاتی ہے۔ میں نے آج بوگر میں یہ ڈش دیکھی تو چین کی یاد آ گئی۔ ادھر بارش زوروں سے ہو رہی تھی۔ میں نے علی کو اشارہ کیا کہ اسے کھانے کا آرڈر دے دو۔ ادھر اس نے آرڈر دیا ادھر فورا ًہی ہماری ٹیبل پر خوبصورت نیا چولہا رکھا ہوا تھا۔ اس میں گیس تو اندر ہی فٹ کیا ہوا تھا۔ کوئی پانچ دس منٹوں میں انہوں نے بڑی نفیس سی چھوٹی کڑاہی چولہے پر رکھ دی۔ اس کڑاہی کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ دونوں میں گرما گرم سوپ تھا ایک حصہ میں زیادہ مرچ مگر ایک میں دوسرے سے کم تھی۔ سوپ چونکہ پہلے سے گرم تھا۔ آگ جلائی گئی تو ایک منٹ میں وہ ابلنے لگا۔ ایک ملازم نے اس میں فش، کباب ، چکن ، گوشت ، سبزیاں ڈال دیں۔ بس پانچ منٹ کے بعد کھانا تیار تھا۔ شدید بارش ، برآمدہ کے اوپر شیشے کی چھت جس میں بارش اترتی ہوئی نظر آ رہی تھی، اور گرما گرم فش ، کباب ، گوشت اور سوپ ۔ قارئین کرام! یہ کہنے اور لکھنے کی ضرورت نہیں کہ یہ لنچ کتنا مزیدار ہو گا۔ علی کو بھی میں نے پیالے بھر بھر کر دئیے۔ پہلے تو ہچکچایا، پھر میری حوصلہ افزائی پر اس نے بھی خوب انجوائے کیا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس کا بل بڑا مناسب تھا۔
بارش ابھی جاری تھی کہ ہم نے دیکھا کہ جکارتہ جانے والی ٹریفک کو کھول دیا گیا ہے۔ ہم نے بل کی ادائیگی کی ۔ صدر دورازے کو اس طرح بنایا گیا ہے کہ آپ کی گاڑی دروازے کے بالکل سامنے آ جاتی ہے۔ ایک انڈونیشی ہاتھ سے بنی ہوئی تصاویر بیچ رہا تھا۔ جس میں بڑے خوبصورت مناظر بنے ہوئے تھے۔ میں نے اپنے بیٹے عکاشہ مجاہد کے لیے ایک تصویر خرید لی کہ اسے ہاتھ کے بنے مناظر کا بڑا شوق ہے۔ یوں بھی وہ اب اعلیٰ درجے کا خطاط بن گیا ہے۔ ہم جکارتہ کے لیے روانہ ہوئے تو بارش ہو رہی تھی۔ جکارتہ پہنچتے پہنچتے عشاء کا وقت ہو گیا جیسے ہی ہم جکارتہ کے قریب پہنچے ۔ بارش آہستہ آہستہ کم ہوتی چلی گئی۔ اتوار کو بے شمار لوگ بوگر کا رخ کرتے ہیں اس لیے چھٹی کی وجہ سے بے تحاشا رش ہوتا ہے۔ اگر کسی نے بوگر کی سیر کرنی ہے تو وہ اتوار کے علاوہ کسی اور دن کا انتخاب کرے۔ اسے اور زیادہ مزا آئے گا۔ وقت بھی بچے گا۔
ہماری خواہش تھی کہ ہم کسی خوبصورت مسجد میں مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا کریں۔ جکارتہ میںداخل ہونے سے پہلے بڑا سا مینار نظر آیا۔ ہم نے وہاں نمازیں ادا کرنے کا فیصلہ کیا۔ گاڑی کے لیے معقول پارکنگ تھی۔ یہ ایک نہایت خوبصورت مسجد تھی جس کے صدر ہال میں داخل ہونے کے لیے ہمیں خاصی سیڑھیاں چڑھنا پڑیں۔ مسجد میں خاصے لوگ بیٹھے ہوئے عشاء کی نماز کا انتظار کر رہے تھے۔ ابھی عشاء کی اذان میں وقت باقی تھا۔ خواتین کے لیے پردے لگا کر مسجد کے ہال میں ہی نماز کے لیے جگہ بنی ہوئی تھی۔ میں نے مغرب اور عشاء کی جماعت کروائی۔تو اور مسافر بھی ہمارے ساتھ شامل ہو گئے۔مسجد میں بڑی خوبصورت میناکاری کی ہوئی تھی۔ یوں بھی مسجد خاصی بڑی تھی۔ لگتا ہے کسی نے بڑے شوق و ذوق سے بنوائی ہے۔ مغرب اور عشاء کی نماز کی ادائیگی کے بعد باہر نکلے تو سامنے کئی منزلہ عمارت پر نظر پڑی رات کے وقت یہ عمارت روشنیوں میں نہائی ہوئی تھی۔ علی نے بتایا کہ یہ مسجد انڈونیشیا کے ایک عالم دین کے نام پر بنائی گئی ہے جو آج سے کوئی سو سوا سو سال پہلے بیت اللہ شریف کے امام تھے۔ اب یہاں مدرسہ ہے، بچے قرآن حفظ کرتے اور دیگر اسلامی علوم پڑھتے ہیں۔ میرا اندازہ ہے کہ بلڈنگ چھ سات منزلہ تو ضرور ہو گی۔
ہمارا ڈرائیور علی بڑے کام کا بندہ ہے۔ اس نے ہمارے ساتھ دن کا کافی حصہ گزارا۔
پیر 12نومبر 2018کی شام کو ہماری انڈونیشیا سے سنگا پور کے لیے روانگی تھی۔ ہم نے آج کا دن جمعیۃ محمدیہ اور دارالماھر میں عبدالغفار کے ساتھ گزارنا تھا۔ میں ریاض سے محمدیہ اور عبدالغفار کے لیے شیلڈیں لے کر آیا تھا۔ مجھے محمدیہ کے ذمہ داران سے ملاقات کرنا تھی۔ ان کے ساتھ پہلے سے وقت طے ہوا تھا۔ دس بجے صبح عبدالغفار اپنی لینڈ کروزر لے کر ہوٹل آگیا ۔ ہم نے ہوٹل کو الوداع کہا سامان گاڑی میں رکھوایا اور محمدیہ کے دفتر کی طرف چل دیے۔ جکارتہ میں بڑی بڑی بلڈنگز یا تو بن چکی ہیں یا بن رہی ہیں۔ بہر حال اگر میں جکارتہ کی عمارتوں کا لاہور یا کراچی ، اسلام آباد سے مقابلہ کروں تو جکارتہ کی عمارتیں کافی زیادہ اور خوبصورت ہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اسلام آباد کا شہر واقعی بڑا خوبصورت ہے۔ جکارتہ میں مجھے صفائی تو اچھی لگی مگر سڑکوں پر ٹریفک کا اژدہام تھا۔ ان دنوں میٹرو پر کام جاری ہے۔ کافی کام مکمل ہو چکا ہے ۔ اندازہ ہے ایک دو سال کے بعد جب میٹرو چلنا شروع ہو جائے گی تو ٹریفک پر کافی حد تک قابو پا لیا جائے گا۔
عبدالغفار کے نزدیک جکارتہ میں اگر ٹریفک جام ہو جائے تو آدھ گھنٹہ کا سفر دو گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ 
 
 

شیئر: