Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گھر والوں نے مخالفت کی ، مجبوراً شوبز کو خیرباد کہنا پڑا، رانا اختر

محمد عامل عثمانی۔مکہ مکرمہ
مکہ مکرمہ میں میری ملاقات پاکستانی ٹیلی فلم ”بیلا پور“کے ہیرو رانا اختر علی سے ہوئی۔ پہلی ملاقات ہی میں یہ نوجوان ہیرو جیسا لگا اور استفسار پر معلوم ہوا کہ میرا اندازہ صحیح نکلا ہے۔ میں نے اس خوبرو نوجوان سے مختصر سی بات چیت کی جو اردونیوز کے قارئین کے لئے پیش کی جا رہی ہے :
*آپ نے اداکار بننے کا باقاعدہ ارادہ کیا یا یہ محض اتفاق ہوا؟
** دیکھیں ! بچپن میں ہی ہربچے کا کوئی نہ کوئی شوق ضرور ہوتا ہے۔ اسی طرح مجھ پر توایکٹر یا کرکٹر بننے کا بھوت سوار تھا۔ جیسے جیسے بڑا ہوتا گیا، شوق جنون میں بدلتا رہا۔کہتے ہیں کہ اگر کسی چیز کوپورے دل سے ٹوٹ کر چاہو تو ساری دنیا اسے تم سے ملانے کی کوشش میں لگ جاتی ہے۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ کرکٹ اچھے لیول تک کھیلی لیکن اس میں مجھے اپنامستقبل نظر نہیں آ رہا تھا۔ اداکاری کا شوق بھی تھا مگرکبھی سوچا نہیں تھا کہ موقع بھی مل ہی جائے گا۔
ہوایوں کہ میرا ایک دوست سجاد علی اکثر مجھے آڈیشن دینے کے لئے کہا کرتا تھا لیکن مجھے ایک قسم کی ہچکچاہٹ سی رہی۔ ایک روز میں نے سوچا کہ ٹرائی کرنے میں کیا حرج ہے۔ میں آڈیشن دینے گیا تو وہاں لوگوں کا جم غفیر تھا جسے دیکھ کریوں لگاکہ میری دال نہیں گلے گی لیکن ہوا یوں کہ میں آڈیشن میں پاس ہو گیااور اس طرح اداکاری کا موقع مل گیا۔
یہ زندگی کا خوشگوار تجربہ تھا۔ سیٹ پر بہت اچھے لوگ ملے جن سے بہت اچھی دوستی بھی ہوئی۔”صابرہ سلطانہ “ پاکستانی فلم انڈسٹری کا بہت بڑا نام ہیں جنہوں نے سلطان راہی ، حبیب ، وحید مراد اور شبنم جیسے افسانوی شہرت یافتہ اداکاروں کے ساتھ تقریباً200 فلموں میں کام کیا ہے۔ انہوں نے مجھے اداکاری کے کچھ نکات سکھائے۔
میری ”کو اسٹار“ نمرہ بلوچ جو ہیروئن کا کردار ادا کر رہی تھیں، انہوں نے بھی مجھ سے بہت تعا ون کیا۔ مجھے کبھی محسوس ہونے نہیں دیا کہ میں پاکستان فلم انڈسٹری کے نامور اداکاروں کے ساتھ کام کر رہا ہوں۔ اس فلم کے ڈائریکٹر سلطان بلوچ تھے جو جدید ٹیکنالوجی میں اچھی شہرت رکھتے ہیں۔
ٹیلی فلم کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک غریب نوجوان خواہشوں سے بھرپور ہوتا ہے لیکن اپنی خواہشات کی تکمیل میں اپنوں سے دور ہوجاتا ہے۔
** رانا اختر نے بتایا کہ میرے پسندیدہ اداکاروں میں سلمان خان ، شان ، عجب گل اور ریمبوجبکہ اداکاراو¿ں میں ریما اور ماہرہ خان شامل۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے تقریباً 6ماہ شوبز میں کا م کیا اورگھر والوں سے چھپائے رکھا پھر جب گھر والوں کو پتا چلا تو انہوں نے بہت مخالفت کی۔ میں نے گھر والوں کو بہت سمجھایا کہ شوبز میں میرا مستقبل زبردست ہوگا مگر وہ نہیں مانے۔ مجبوراً مجھے شوبز کو خیر باد کہنا پڑا۔
میرے والد مجھے ڈاکٹربنانا چاہتے تھے لیکن قسمت میں کچھ اور لکھا تھا۔حصول روزگارکے لئے بہت جگہ قسمت آزمائی کی لیکن اللہ کریم کے فیصلے بے شک انسان کے لئے بہترین ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے گھر مکہ مکرمہ آنے کا موقع عطا فرمایا اور ساتھ ہی الحمدللہ ،اچھا روزگار بھی مل گیا۔میں سعودی عرب آ گیا۔ میں بی ٹیک سول انجینیئرہوں اورالحمدللہ، مکہ مکرمہ میں اچھی جاب کر رہا ہوں۔
ایک سوال کے جواب میں رانا اختر علی نے کہا کہ میرے اس مختصر سے تجربے سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ بہترین اداکاری کے لئے مشاہدات، محنت اور اپنے کام سے محبت بہت ضروری ہے۔ پاکستان میں فلم سازی اور ڈراموں کے مستقبل کے حوالے سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ منافع بخش میدان بھی ہے اوراس میدان میں لوگوں کا رجحان خاصا بڑھتا جارہاہے۔ پاکستان واپسی کا فوری کوئی ارادہ نہیں۔ اب میری تمنا ہے کہ میں سعودی عرب میں ہی کام کرتا رہوں لیکن اگر وطن واپسی ہوئی تو میں اداکاری کی بجائے تجارت اور ماڈلنگ کے میدان میں قدم جماو¿ں گا۔
پاکستان میں سیاست کے حوالے سے سوال پررانا اختر نے کہا کہ میں سیاست پر زیادہ کچھ بول تو نہیں سکتا البتہ میری خواہش ہے کہ میرے وطن کی سیاست ، دنیا کے بدلتے ہوئے سیاسی حالات سے مطابقت کی حامل ہو۔اس کے لئے تازہ اور نوجوان قیادت درکار ہو گی۔
 

شیئر: