Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکہ کیلئے افغانستان میں ٹھہرنا محال ہوگیا

ٹرمپ جو افغانستان میں غضب بن کر نمودار ہوا تھا آج مذاکرات کی میز سجائے بیٹھا ہے
 
سید شکیل احمد 

 

             پاکستان کے مایہ نا ز سپو ت اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنر ل (ر) حمید گل نے ایک ٹی وی ٹاک میں کہا تھا کہ اب یہ کہا جا تا ہے کہ آئی ایس آئی نے امریکہ کے ساتھ مل کر سوویت یو نین کو شکست دی ، بہت جلد وہ وقت آرہا ہے جب کہا جا ئیگا کہ آئی ایس نے امریکہ کے ساتھ مل کر امریکہ کو شکست دید ی ۔ کا ش جنر ل حمید گل آج زندہ ہو تے تو وہ اپنی پیشن گوئی کو عملی جامعہ پہنتے دیکھ پا تے۔ کوئی مانے یا نہ مانے ،حقیقت ہے کہ امریکہ کو افغانستان میں شکست کا سامنا کرنا پڑا  وہ بھی شکست فاش، سیکڑوں ہزاروں اربوں ڈالر لگانے  کے باجود امریکہ افغانستان میں اپنے اہداف مکمل کرنے میں ناکام رہا۔ بعض اندازوں کے مطابق امریکہ نے افغانستان میں ڈیڑھ ٹریلین 4 ارب ڈالر خرچ کیے۔ سرکار ی طور پر البتہ کم بتایا جاتا ہے تاہم امریکی ماہرین اس پر متفق ہیں کہ افغانستان میں بے پناہ مالی نقصان اٹھانا پڑا ۔اس سب کے عوض امریکہ کو کیا حاصل ہوا ؟کتنے اہداف پورے کیے؟ جو اب خاصا مشکل اور مایوس کن ہے۔ جب امریکی اپنی ہولناک عسکری قوت کے ساتھ افغانستان پر چڑھ دوڑا تو کہا گیاتھا کہ القاعدہ اور طالبان کا خاتمہ کر دیا جائے گا لیکن دونو ں کا خاتمہ نہیں کیا جاسکا ۔حقیقت یہ ہے کہ القاعدہ بھی موجود ہے اور طالبان بھی۔
     طالبان سے جن کا خاتمہ کرنے کیلئے امریکہ افغانستان پر حملہ آور ہوا تھا انھی سے وہ مذاکرات کر رہا ہے کہ ان کو تحفظ فراہم کیا جائے واپسی کیلئے ۔اِس وقت بھی امریکی جرنیلوں کے مطابق 60 فیصد سے زیادہ افغان علا قہ طالبان کے کنٹرول میں ہے۔ امریکہ کے سابق وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے کہا تھا کہ اگر ایک باقاعدہ تربیت یا فتہ فوج کسی گوریلا تنظیم کو ختم نہ کر سکے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ گوریلا تنظیم نے اس فوج کو شکست فاش دیدی  اور گوریلا تنظیم کا طالبان کی صورت میں قائم رہنا بذات خود اس کی کامیابی اور فتح  دلیل ہے کہ افغانستان میں طالبان کو امریکی ختم کر سکے اور نہ ان کو شکست دے سکے ۔ طالبان کے 2بنیادی مطالبات تھے۔ وہ افغانستان کی حکومت کو کٹھ پتلی قرار دیتے ہوئے ان سے مذاکرات کے لیے تیار نہیں تھے۔ ان کے آقا سے براہ راست مذاکرات کیے جائیں گے۔ بات کرنے سے پہلے افغانستان سے غیرملکی افواج کی واپسی یاکم از کم اس کی واپسی کی ڈیڈ لائن دینے کی شرط رکھتے تھے۔ امریکہ کو یہ دونوں شرطیں منظور نہیں تھیں۔ آج ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ امریکہ انھی 2 شرائط کو مان کر قطر میں طالبان سے مذاکرات کر رہا ہے۔ افغان نژاد زلمے خلیل زاد کے امریکہ کے نمائندے کی حیثیت سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے کئی دور چل چکے ہیں ۔
     افغانستان میں امریکہ کے سابق سفیر ریان کروکر نے طالبان کے ساتھ معاہدے کو سرنڈر قرار دیدیا ۔ریان کرو کر عراق اور پاکستان، شام، کویت اور لبنان میں بھی سفارتکار رہ چکے ہیں۔ ان دنوں پرسٹن یونیورسٹی سے وابستہ ہیں ۔افغانستان میں سفیر رہنے والے ریان کروکر نے کہا کہ افغانستان میں امریکہ کا طالبان کے ساتھ معاہدہ ہتھیا ر ڈالنا ہے ۔امریکہ طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کررہا ہے اور گزشتہ پیر کے روزا س حوالے سے فریم ورک ایگریمنٹ کا اعلان کیا گیا جس میں افغانستان میں مکمل سیزفائر کی بات کی گئی جس کے تحت امریکی فوج مکمل طور پر افغانستان سے نکل جائیں ۔ اس کے بدلے میں طالبان نے یہ یقین دہانی کرائی کہ وہ افغانستان میں ایسے دہشتگرد تنظیموں کو مدد نہیں دیں گے جو امریکی سیکیورٹی کیلئے خطرہ ہو ں۔گویا طالبان نے امریکہ میں نائن الیون جیسے حملے نہ ہونے کا وعدہ کیا۔مذاکرات میں افغان حکومت شامل نہیں ہوئی۔ طالبان نے افغان حکومت کو امریکی کٹھ پتلی حکومت قرار دیتے ہوئے اس سے مذاکرات کرنے سے انکار کیا تھا ۔
         حیرت کی بات یہ ہے کہ امریکہ طالبان سے القاعد ہ اور داعش کے حملو ں کیلئے افغان سرزمین نہ استعمال کر نے کی طالبان سے ضمانت مانگ رہا ہے جبکہ مبینہ طور پر وہ خود داعش کا خالق ہے ۔طالبان تو داعش کے کٹر مخالف ہیں۔ شام میں امریکہ ہی کہ مبینہ پشت پناہی سے داعش نے کارروائیا ں کیں جبکہ داعش افغانستان میں تب پہنچے جب وہا ں امریکہ کا تسلط تھا ، یہا ں داعش کو پنپنے کا مو قع امریکہ کی مو جو دگی میں حا صل ہو ا ، افغانستان میں تو طالبان نے داعش کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کیا بلکہ انکا مقابلہ کیا۔ اسکے علاوہ طا لبان کی جانب سے یہ الزام بھی لگائے جا تے رہے کہ داعش کو ہیلی کا پڑو ں کے ذریعے ہتھیا ر فراہم کیے گئے ۔یہ کس کے ہیلی کا پڑ تھے اسکا جو اب امریکہ ہی کے پا س ہے ۔
     افغان حکومت کو مذاکرات میں شریک نہ کرنے کا طالبان کا مطالبہ مان کر امریکہ نے اپنی ہی حمایت یافتہ افغان حکومت کا جواز ختم کردیا ۔ بہرحال مذاکرات کا یہ عمل ویتنام جنگ کے دوران پیرس میں ہونے والے امن مذاکرات کے مشابہ ہی ہے۔ اُس وقت کی طرح اب بھی امریکہ مذاکرات کی طرف جانے کی صورت میں سرنڈر کر رہا ہے۔ اس وقت جو مذاکرات ہو رہے ہیں وہ امریکی صرف اپنے سرنڈر کی شرائط طے کرنے کے لیے بات چیت کر رہے ہیں۔ اس موقع پر طالبان جو وعدے کریں گے وہ جانتے ہیں کہ امریکہ کے جانے کے بعد طالبان  واپس آئیں گے تو امریکہ ان وعدوں پر عمل کرانے میں انہیں مجبور نہیں کرسکتا۔ ریان کروکرکا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسا ضروری نہیں کہ حالیہ طرز پر ہی بات چلتی رہے بلکہ امریکہ یہ بھی اعلان کر سکتا ہے کہ بنیادی شرط کے طور پر افغان حکومت کو شامل کیے بغیر مذاکرات آگے نہیں چل سکتے لیکن تاریخ یہ بتاتی ہے کہ امریکہ ایسے مو قع پر اپنے اتحادیو ںکو نظر انداز کردیتا ہے اوراپنے مفادات کو ترجیح دیتا ہے ۔شام اور عراق سے وہ اسی طرح یک طر فہ طوپر نکل گیا اور اپنے اتحا دیوں کے تحفظ کے لیے کچھ نہیں کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کے وہ جنگ ختم نہیںہوئی اور بدترین خانہ جنگی جا ری ہے ۔ایسے ہی خدشات افغانستان کے بارے میں پائے جا تے ہیں ۔
          ان تما م کاوشو ں کے باوجود ایسی ا طلا عات بھی ہیں کہ کچھ عناصر مذاکرات کو سبو زتاژ کر نا چاہتے ہیں تاکہ امریکہ افغانستان سے واپس نہ جائے ۔ اس بارے میں کا بل انتظامیہ کے کئی اہم عناصر کانا م بھی لیا جا رہا ہے مگر اصل صورتحال یہ ہے کہ خو د امر یکہ کے لیے افغانستان میں ٹھہر نا محال ہو گیا ہے اور مزید قیا م خود امریکہ کے لیے بہتر نہیں ۔جب صدر ٹرمپ بر سراقتدار آئے تھے اس وقت انھو ںنے اپنی حکومت کا جو لائحہ عمل ظا ہر کیا تھا وہ افغانستان کے بارے میں جا رحانہ تھا مگر آج یہ صورتحال ہے کہ وہی ٹرمپ جو غضب بن کر نمو دار ہو ا تھا وہ مذاکرات کی میز سجائے بیٹھا ہے ۔جہا ں تک مذاکرات کو نا کام بنا نے کی سازش ہے، اس بارے میں گزشتہ روز افغانستان کے صوبے ننگر ہا ر کے معززین کا ایک جر گہ ہو ا جس میں کہا گیا کہ افغانستان میں امن کے لیے امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہد ہ ہو جا نا چاہیے ، جر گے کے ارکا ن نے اس امر کا خد شہ بھی ظاہر کیا کہ کچھ طاقتیں مذاکرات کو نا کام بنانے کی کا وش کررہی ہیں ۔ جر گے نے طالبان سے مطالبہ کیا کہ وہ کا بل انتظامیہ سے بھی بات چیت کر ے یا پھر جا ری مذاکرات میں ان کو بھی شریک کر ے ۔
مزید پڑھیں:- - - - - آج کے ہمارے سیاست داں۔۔!
 

            
 

شیئر: