Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آئل ریفائنری کاپاکستان کوکیا فائدہ ہوگا؟

اعظم خان ۔ اسلام آباد
سعودی عرب  کے ولی عہد شہزادہ محمد سلمان کے دورۂ پاکستان کے دوران طے پانے والے سمجھوتوں میں سب سے اہم گوادر میں دس ارب ڈالر کی لاگت سے جدید آئل ریفائنری تعمیر کرنے کا معاہدہ ہے۔
پاکستان میں اعلیٰ حکام گوادر میں تیل صاف کرنے والے کارخانے کی اہمیت کے بارے میں متعدد بار بیانات دے چکے ہیں جن کے مطابق اس کارخانے کی بدولت صاف تیل کی درآمد پر خرچ ہونے والے رقم کو خاصی حد تک بچایا جا سکے گا۔
اب سعودی ولی عہد کے دورے کے دوران اربوں ڈالر مالیت کا یہ منصوبہ شروع کرنےپر اتفاق کیا کیا گیا ہے۔
ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ آئل ریفائنری میں تیل صاف کرنے کی یومیہ صلاحیت کتنی ہو گی تاہم وزیراعظم عمران خان کے مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد کا کہنا ہے کہ  یہ ریفائنری پانچ سال  کے عرصے میں مکمل ہوجائے گی۔
 یہ جاننے کے لیے کہ اس آئل ریفائنری کاپاکستان کوکیا فائدہ ہوگا؟ پہلے کچھ بنیادی سوالات کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔
  • ریفائنری ہوتی کیا ہے؟
آئل ریفائنری میں خام تیل کو صاف کرکے  پٹرولیم  مصنوعات  تیار کی جاتی ہیں۔ جیسے پٹرول، ڈیزل اور ہائی اوکٹین۔ تیاری کے عمل کے بعد طلب کے حساب سے ریفائنری سے  پٹرولیم مصنوعات کی سپلائی ہوتی ہے۔ 
  • پاکستان میں اس وقت کتنی آئل ریفائنریز ہیں؟
  اس وقت پاکستان میں  پانچ ریفائنریز کام کررہی ہیں جن میںپاکستان  ریفائنری لمیٹڈ،  نیشنل ریفائنری لمیٹڈ،  اٹک ریفائنری لمیٹڈ، پاک عرب ریفائنری  اور  بائیکو  شامل ہیں۔ 
ایک ریفائنری میں ہزاروں ملازمتوں  کے علاوہ بالواسطہ ملازمتوں کے مواقع بھی  میسر آتے ہیں۔  ہر ریفائنری کےاندر ایک کالونی کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے جس میں ہزاروں ملازمین  اپنے خاندان سمیت رہتے ہیں۔ یہ ملازمین ان ریفائنری میں شفٹس میں کام کرتے ہیں۔ ایک ریفائنری میں یومیہ پٹرولیم مصنوعات کی پیداوار سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہاں کتنے ہزار ملازمین براہ راست کام کرتے ہیں۔
  • آخر گوادرہی کیوں ؟
گوادر پورٹ نے پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی راہ داری  کے معاہدے کے بعدزیادہ اہمیت اختیار کرلی ہے، چین کی طرف سے اس معاہدے کے تحت ایک مکمل پورٹ سٹی کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے۔حکومت کے مطابق  سی پیک کے تحت گوادر پورٹ معاشی سرگرمیوں کا مرکز بن جائے گی، ایسے میں یہ ریفائنری تیل کی ضروریات پوری کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ گوادر پورٹ سے وسطی ایشیا اور  مشرق وسطیٰ کے ممالک تک رسائی بھی آسان ہے۔   
  • کیا یہ ریفائنری ضروری ہے؟
پاکستانی حکام کے مطابق اس وقت  پانچ ریفائنریز کے باوجود پاکستان کی تیل کی ضروریات پوری نہیں ہورہی ہیں۔ پاکستان  اس خسارے کو پورا کرنے کے لیے دوسرے ممالک پر انحصار کرتا ہے۔ مقامی ریفائنریز میں  معیار  کے فقدان کے باعث 30 فیصد فرنس آئل  کی پیداوار  ہوتی ہے جو قابل استعمال  نہیں۔
 انگریزی اخبار ڈان کے سینیئر صحافی  خلیق کیانی  نے اردو نیوز کو بتایا کہ  سعودی عرب کی طرف سے مجوزہ ریفائنری جدید نوعیت کی ہوگی جس  سے  اچھی کوالٹی کی پٹرولیم مصنوعات کی پیداوار ممکن ہوسکے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’سی پیک کے بعد معاشی سرگرمیاں بڑھ جانی ہیں، ہمیں ایک نہیں ایسی دو سے تین مزید آئل ریفائنریز کی بھی اشد ضرورت ہے۔  ‘
 حکام  کو امید ہے کہ  سعودی عرب کی طرف سے یہ ریفائنری پاکستان کو اس شعبے میں خود مختار بنانے میں بڑی مدد فراہم کرے گی۔  وفاقی وزیر خسرو بختیار کے مطابق ریفائنری سے پاکستان کی تیل سے متعلق بیرونی ادائیگیوں کو کم کرنے میں بڑی مدد ملے گی اور مزید قرضوں کی ضرورت کم ہو جائے گی۔
پاکستان کے سرمایہ کاری بورڈ کے سربراہ ہارون شریف کے مطابق آئل ریفائنری کی تعمیر سے مقامی افراد کو نوکریوں کے مواقع فرہم ہوں گے۔
  • سعودی ریفائنری کی تزویراتی اہمیت
ماہرین کے مطابق گوادر پورٹ اس وقت  آبنائے ہرمز  کے متبادل کے طور پر بھی دیکھا جارہا ہے۔ سعودی آئل ریفائنری  اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے گوادر میں مجوزہ خلیفہ ریفائنری کے قیام سے چارو ں طرف سے خشکی میں گھرے وسطی ایشیائی ممالک پاکستان سے تیل درآمد کرنے  کے لیے پاکستان کی طرف دیکھنا شروع ہوجائیں گے، جس سےپاکستان تیل برآمد کرنے والے ممالک کی صف میں کھڑا ہوجائے گا۔
سکیورٹی امور کے ماہر عامر رانا نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ گوادرکی جغرافیائی اہمیت کی بدولت  یہاں آئل ریفائنری کا قیام بہت اہمیت کا حامل ہے، ان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی سرمایہ کاری کی وجہ سے بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال میں مزید بہتری آئے گی کیونکہ بلوچستان میں بسنے والے سعودی عرب  پر اعتماد  کرتے ہیں۔ بلوچ بڑی تعداد میں سعودی عرب جانا اور وہاں کام کرنا  بھی پسند کرتے ہیں۔
 

شیئر: