Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈین الیکشن میں سوشل میڈیا پر جعلی خبریں ایک بڑا چیلنج

انڈیا میں عام انتخابات کی مہم زور و شور سے جاری ہے اور تمام سیاسی جماعتیں اور بالخصوص حکمران جماعت بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) اس مرتبہ الیکشن میں سوشل میڈیا کا بڑے پیمانے پر استعمال کر رہی ہے، لیکن سوشل میڈ یا پر انڈین انتخابات سے جڑی جعلی خبریں بھی ایک بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔
یہ پہلا الیکشن ہے جس میں اسمارٹ فون استعمال کرنے والے نوجوان ووٹروں کی ایک بڑی تعداد اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرے گی۔ 
کچھ روز قبل اوی ڈانڈیا کی جانب سے سوشل میڈیا پر ایک آڈیو ٹیپ لیک ہوئی جس میں بی جے پی کی ایک رہنما ایک فوجی افسر کے بیٹے کو کہہ رہی تھیں کہ انڈین فوجیوں پر حملہ کروانا ہے۔یہ ویڈیو بعدازاں سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی اور لاکھوں کی تعداد میں دیکھی گئی تھی۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق اگلے 24 گھنٹوں کے دوران ہی انڈین فیس بک فیکٹ چیکر BOOM نے ڈانڈیا کی ویڈ یو کو جعلی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ویڈیو مختلف قسم کے پرانے سیا سی انٹرو یوز میں سے الگ کر کے تیار کی گئی ہے۔
فیس بک کی جانب سے جب اس ویڈ یو کو ہٹایا گیا تو وہ 25 لاکھ ویوز اور 150،000شیئرز حاصل کر چکی تھی۔بھارت میں اس قسم کی جعلی خبروں کے خاتمے کے لیے کوئی با قاعدہ قانون نہیں ہے،مگر نیو دہلی پولیس کی جانب سے ڈنڈیا کے خلاف جعلی مواد عام کرنے کا مقدمہ درج کیا گیا جس پر تحقیقات جاری ہیں۔
یہ تمام کارروائی عمل میں لانے کے با وجود گزشتہ ہفتے روئٹرز کو سوشل میڈ یا پر ڈنڈ یا کی کی تقریباً 36،000 ترمیم شدہ جعلی ویڈیوز ملی ہیں۔ جن میں سے ایک یوٹیوب پر 2800 اور ٹوئٹر پر 22،000 ویوز کے ساتھ دیکھی جا سکتی ہے۔ 
ماضی میں انڈین انتخابات کے دوران سوشل میڈیا پر جعلی ،جھوٹی اور حقائق کے مترادف خبروں کی تشہیر نے ہمیشہ سے ووٹروں کو بڑی تعداد میں متاثر کیا ہے۔
گزشتہ ہفتے بھارتی الیکشن کمیشن کے ساتھ سماجی رابطوں کو کنٹرول کرنے والی معروف کمپنیوں کے نمائندوں نے ملاقات کی تھی۔ جن میں فیس ب±ک، واٹس ایپ، گوگل، ٹک ٹوک اور ٹویٹر خاص طور پر نمایاں تھیں۔ اس میٹنگ کا مرکزی موضوع انتخابی مہم کے دوران سماجی رابطوں کے پلیٹ فارم کا غلط استعمال روکنا تھا۔
متعدد سوشل میڈیا اکاونٹس کے بارے میں با ت کرتے ہو ئے ڈیجیٹل ماہرین کا کہنا تھا کہ کئی ایسے اکاو¿نٹس بھی متحرک و فعال ہیں جو سیاسی پارٹیوں کے ساتھ کوئی تعلق اور ر ابطہ نہ ہونے کے باوجود سیاسی جماعتوں کے پیغامات کی ترسیل کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
سماجی رابطوں کے پلیٹ فارم سے قابل اعتراض مواد کو ہٹانے اور جعلی اکاو¿نٹس کو بلاک کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے کیونکہ یہ عمل کئی مختلف مراحل پر مشتمل ہے۔ 
قابل اعتراض مواد کا ہٹانا مشکل یا نا ممکن ؟
بھارتی تجزیہ کاروں اور ڈیجیٹل ورلڈ کے ماہرین میں یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ سماجی رابطوں پر قابل اعتراض مواد کا تعین اور ہٹانے کا اصولی فیصلہ کون کرے گا۔ اس تناظر میں حقائق کو چیک کرنے والی ایک ویب سائٹ ’آلٹ نیوز‘ کے بانی پراتیک سنہا کا کہنا ہے کہ اب یہ بہت ہی مشکل کام ہے کیونکہ قابل اعتراض مواد ہٹانے کا فیصلہ بہت پہلے کیا جانا چاہیے تھا، اب الیکشن کے نزدیک اس کا تعین کرنا بہت ہی مشکل ہو سکتا ہے۔ سنہا کے مطابق اس مناسبت سے الیکشن کمیشن کے ضوابط بظاہر مبہم دکھائی دیتے ہیں۔
سماجی رابطے کی مشہور ویب سائٹ فیس بک کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں انتخابی مواد کی نگرانی کا آپریشن شروع کرنے والی ہے۔ 
یہ مرکزی دفتر سارے انڈیا میں قائم ذیلی فیس بک کی کمپنیوں کے علاوہ مختلف بین الاقوامی دفاتر کے ساتھ بھی رابطے بحال کرتے ہوئے مقامی دفتروں کی رہنمائی کرے گا تا کہ کم از کم جھوٹی خبروں کے سلسلے کا خاتمہ کیا جا سکے۔ اس آپریشن کے دوران فیس بک نے بھارتی الیکشن کمیشن کے ساتھ بھی مسلسل رابطہ رکھنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ 
 

شیئر: