Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں ایک ہزار لفظوں پر بھاری تصویر کے چرچے

***شاہد عباسی***
ابلاغ عامہ کے اساتذہ کہتے ہیں کہ ایک تصویر ہزاروں لفظوں پر بھاری ہوتی ہے کیونکہ یہ اپنے دیکھنے والے کو وہ سب کہہ جاتی ہے جو طویل تحریر نہیں کر سکتی۔ کچھ ایسا ہی معاملہ پاکستانیوں کی سوشل میڈیا ٹائم لائنز پر دیکھنے میں آیا جہاں ایک تصویر کے چرچے ہیں۔
پاکستانی صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں بس ریپڈ ٹرانزٹ یا بی آر ٹی منصوبے کی ایک تصویر کو کوئی سر اٹھا کر نہ چلنے کی رسم قرار دے رہا ہے تو کوئی متوقع تیل و گیس ذخائر یہیں سے نکلنے کی نوید سنا رہا ہے۔ ایسے افراد بھی خاصی تعداد میں ہیں جو اس منظر کو مسلسل تاخیر کا شکار ہونے والے منصوبے کے متعلق حکومتی غیر سنجیدگی کا ثبوت قرار دے رہے ہیں۔
سوشل میڈیا بالخصوص ٹوئٹر پر زیرگردش تصویر انگریزی اخبار ڈان نے جمعہ کو شائع کی ہے۔ تصویر کے ساتھ موجود کیپشن میں لکھا گیا ہے کہ بی آر ٹی منصوبہ کے ایک انڈر پاس کے عین درمیان میں گیس کا پائپ نمایاں ہے۔
حکومت کی جانب سے زیرسمندر تیل و گیس ذخائر کی دریافت کے متعلق بیانات کے باوجود کوئی پیشرفت نہ ہو سکنے پر دبے لفظوں تنقید جاری تھی، جسے اس تصویر نے نیا رنگ دے ڈالاہے۔ عمار مسعود نامی ٹوئٹر صارف نے اپنے طنزیہ تبصرہ میں لکھا کہ 'گیس کے ذخائر یہیں سے دریافت ہوں گے۔'
سوشل میڈیا صارفین نے منصوبہ بندی کے معیار اور اتنی بڑی غلطی پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے طنزیہ تبصرے بھی کیے۔ کہیں اسے سونامی سے بچاؤ کے لیے کوشش قرار دیا گیا تو کسی نے کہا کہ اس تصویر کے سامنے انوویشن اور ضرورت ایجاد کی ماں جیسے الفاظ چھوٹے پڑتے نظر آ رہے ہیں۔
پاکستانی صحافی عمر چیمہ نے تصویر شیئر کرتے ہوئے ایک قدم آگے بڑھ کر اسے واضح طور پر انتظامی نااہلی سے تعبیر کیا، انہوں نے لکھا کہ 'جس کا کام، اسکو ساجھے۔'
تصویر کی بنیاد پر پی ٹی آئی حکومت اور موجودہ وزیر دفاع پرویز خٹک کو تنقید کا نشانہ بنانے والوں کے ساتھ کچھ ایسے صارفین بھی تھے جو تصویر میں دکھائی دینے والے منظر کا دفاع کرتے نظر آئے۔ ڈاکٹر محمد نامی صارف نے بنیادی حقیقت کو جھٹلاتے ہوئے کہا کہ 'یہ عارضی ڈرینج لائن ہے جو کنسٹرکشن کا ویسٹ پانی باہر نکال رہی ہے اور جب کام ختم یو گا یہ پائپ نکال دیا جائے گا۔'
ٹوئٹر میں زیر بحث موضوعات پر ہونے والی گفتگو نظم و نثر دونوں کے مواد پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہاں بھی اس وقت کچھ ایسا ہی ہوتا نظر آیا جب فہد کیہر نامی ایک صارف نے اسے 'چلی ہے رسم کوئی نہ سر اٹھا کے چلے' قرار دے ڈالا۔
اپنی نوعیت کی اس منفرد تصویر کے متعلق بیرون ملک مقیم پاکستانی بھی گفتگو کرتے نظر آئے۔ شمع جونیجو نامی اداکارہ نے دیگر صارفین کی نسبت حکومتی بدانتظامی یا غیرسنجیدگی کو موضوع بنانے کے بجائے نیا پہلو تلاش کر لیا۔ وہ تصویر میں نظر آنے والی خواتین کے 'ٹوپی برقعوں' پر تشویش کا شکار نظر آئیں۔
سوشل میڈیا پر زیرگردش تصویر اور اس سے متعلق گفتگو کو دیکھ کر یہ رائے قائم کی جا سکتی ہے کہ شاید شائع ہونے والی تصویر کو اخبار میں دیکھنے والوں سے ان لوگوں کی تعداد زیادہ ہے جنہوں نے اسے سوشل میڈیا پر دیکھا ہو گا۔ 
بول نیوز کے میزبان سمیع ابراہیم نے اپنے تبصرے میں سابق وزیر خیبرپختونخوا اور موجودہ وزیر دفاع پرویز خٹک کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ 'پشاور میٹرو بنانے والا یہ ذہین انسان اب پاکستان کے دفاع کا ذمہ دار ہے۔ ہمارا دفاع واقعی مضبوط اور ذہین ہاتھوں میں ہے۔'
بی آر ٹی منصوبہ خیبرپختونخوا میں گزشتہ پی ٹی آئی حکومت کے وزیراعلی پرویز خٹک کے دور میں شروع کیا گیا تھا۔ 29 اکتوبر 2017 کو منصوبہ پر کام شروع ہوا جس کا راستہ چمکنی سے شروع ہو کر کارخانو پر ختم ہو گا۔ 31 اسٹیشنوں پر مشتمل تقریبا 26 کلومیٹر طویل منصوبہ پر ابتداء میں تقریبا 41 ارب روپے لاگت کا تخمینہ لگایا گیا تھا جو مسلسل تاخیر کا شکار ہونے اور متعدد تبدیلیوں کے بعد بڑھ کر 49 ارب اور پھر
 66 ارب چالیس کروڑ روپے تک پہنچ چکی ہے۔
 

شیئر: