Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ماریطانیہ میں آج بھی غلام موجود!

ماریطانیہ میں اگرچہ سرکاری سطح پر غلامی کا خاتمہ ہوئے ایک صدی سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ملک میں آج بھی ایک غلام طبقہ موجود ہے۔
آج کے جدید دور میں بھی ماریطانیہ کے سابق غلام بدستور اپنے حقوق کے حصول کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
ماریطانیہ میں معاشرہ دو طبقات میں بٹا ہوا ہے، ایک طبقہ’’بیضان‘‘ کہلاتا ہے ، اس سے مراد  گورے آقا ہیں۔
ماریطانیہ کے دوسرے طبقے میں وہ لوگ شامل ہیں جو ماضی میں’’بیضان ‘‘ کے غلام رہے ہیں۔ یہ وہ سیاہ فام ہیں جنہیں’’ الحراطین‘‘ کہا جاتا ہے۔
الحراطین کہنے کو تو آزاد ہیں مگر آج بھی غلاموں جیسی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ انہیں ’’بیضان‘‘ کے برابر شہری حقوق حاصل نہیں۔ 
الحراطین نے اپنے حقوق کے حصول کے لیے تاریخ کے مختلف ادوار میں منظم جدوجہد کی۔

نواکشوط یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر السید ولد باہ نے برطانوی چینل سکائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ماریطانیہ کی نصف آبادی الحراطین پر مشتمل ہے۔ الحراطین نے اپنے حقوق حاصل کرنے کیلئے مختلف تنظیمیں بھی قائم کیں۔
پروفیسر السید ولد باہ کا کہنا ہے کہ الحراطین کی سب سے بڑی تنظیم سنہ 1980ء میں قائم ہوئی جسے ’’حرکت الحر‘‘ کا نام دیا گیا، یہ آزادی کی تحریک تھی جس نے پوری دنیا کو اپنے مسائل کی طرف متوجہ کیا۔
پروفیسر السید ولد باہ نے کہا کہ عالمی دباؤ کے نتیجے میں ماریطانیہ کی حکومت نے سنہ 2018ء میں باضابطہ قانون منظور کیا جس میں واضح کیا گیا کہ ملک میں غلامی پر پابندی عائد ہے۔ اس قانون کے مطابق غلامی کی کسی بھی شکل کو اختیار کرنا انسانیت کے خلاف جرم تصور ہو گا۔‘
اس قانون کے منظور ہونے کے بعد ماریطانیہ کی پارلیمنٹ میں الحراطین کو نمائندگی ملنا شروع ہوئی۔
دوسری جانب الحراطین کا کہنا ہے کہ انہیں صرف دکھاوے کے حقوق دیے گئے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ  ان کے سابق آقا آج بھی ان کے ساتھ ایک مجلس میں بیٹھنا تک گوارہ نہیں کرتے، یہ عام طور پر سننے کو ملتا ہے کہ ہم ’’بیضان ‘‘ ہیں اور تم الحراطین ہو۔‘
پروفیسر السید ولد باہ نے مزید بتایا کہ الحراطین اپنے حقوق کے حصول کیلئے ہر سال اپریل کے آخر یا مئی کے شروع میں ملک گیر جلوس بھی نکالتے ہیں۔
 الحراطین کی تنظیم’’ ایرا‘‘ کے رکن اور صحافی عبید ولد امیجین نے بتایا کہ  الحراطین کے ساتھ پیش آنے والے مظالم نے انہیں متحد کردیا ہے۔ الحراطین اپنے سیاسی و شہری حقوق کیلئے مل کر جدوجہد کر رہے ہیں۔
صحافی عبید ولد امیجین کا کہنا ہے کہ قانونی طور پرملک میں غلامی پر پابندی کے باوجود انہیں اعلیٰ تعلیم کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے،انہیں روزگار کے مواقع نہیں دیے جاتے،انہیں سیاسی و معاشرتی سطح پر بھی پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے۔‘
عبید نے بتایا کہ ماریطانیہ کی آدھی آبادی الحراطین سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کے باوجود 50فیصد معاشرے کو ملک کی تعمیر و ترقی میں کوئی کردار ادا کرنے نہیں دیا جاتا۔ 
صحافی عبید نے مطالبہ کیا کہ ماریطانیہ کی حکومت الحراطین کے شہری حقوق تسلیم کرے اور انہیں ترقی کے یکساں مواقع بھی فراہم کرے۔

واضح رہے کہ ماریطانیہ براعظم افریقہ میں واقع عرب ملک ہے، یہاں فرانس کے اقتدار کے دوران 1905ء میں غلامی پر پابندی عائد کر دی گئی تھی ۔
سنہ 1960ء میں ماریطانیہ نے آزادی حاصل کی اور ملک کے نئے دستور میں غلامی کو جرم قرار دیا گیا۔ 1980ء میں حکومت نے غلامی کو ایک مرتبہ پھر جرم قرار دیا۔
  سنہ2011 میں حکومت نے الحراطین کے نمائندوں پر مشتمل وفد سے پہلی مرتبہ مذاکرات کیے جس کے نتیجے میں انہیں پارلیمنٹ میں نمائندگی دی گئی۔  

 

شیئر: