Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مریم نواز کا بیانیہ اور نئے میثاق جمہوریت  کے امکانات

مریم کے لب و لہجے سےنہیں لگتا تھاکہ وہ کسی ڈیل کے زیراثر ہیں
 اسلام آباد کے زرداری ہائوس میں اتوار کو ہونے والے افطار ڈنر کے میزبان توپاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری تھے اورمہمانوں میں اپوزیشن کی تقریبا تمام اہم جماعتیں مگرسب کی توجہ کا مرکز پاکستان مسلم لیگ نوازکی نئی نائب صدرمریم نواز شریف تھیں۔
وفاقی دارالحکومت کے پوش ایف سیکٹر میں واقع زرداری ہائوس ایک عرصے بعد سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا لیکن یوں کہا جائے کہ یہ تقریب مریم نواز کی عملی سیاست میں لانچنگ کی تقریب تھی تو بے جا نہ ہوگا۔ گویا بلاول بھٹو نے اپنی مستقبل کی سیاسی حریف کو سیاسی اننگز کے آغاز کا موقع فراہم کیا۔ تاہم جعلی اکاونٹس کیسزمیں ممکنہ گرفتاری کے خطرے کا سامنا کرنے والے بلاول بھٹوکا یہ فیصلہ شاید ان کی سیاسی ضرورت بھی تھی۔
دوسری طرف عام انتخابات سے قبل نیب کیسز میں سزا پا کر جیل چلے جانی والی مریم نواز اپنی والدہ بیگم کلثوم نواز کی وفات کے بعد سے سیاسی خاموشی کی روش پر قائم تھیں مگر اتوار کونہ صرف وہ پہلی مرتبہ ایک سیاسی اجتماع میں شریک ہوئیں بلکہ پہلی مرتبہ انہوں نے کھل کر عوامی سطح پر لب کشائی بھی کی۔ پریس کانفرنس کے بعد صحافیوں کے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ اب بھی سول بالادستی کے بیانیے پر قائم ہیں۔ انہوں نے نیب کے سیاسی استعمال پر بھی کڑی تنقید کی۔ کم ازکم مریم نواز کے لب و لہجے سے نہیں لگتا تھا کہ وہ کسی ڈیل کے زیراثر ہیں۔ تاہم پریس کانفرنس اور اس سے قبل اجلاس کے دوران بھی وہ خاصی سنجیدہ نظر آئیں۔
اس سے قبل اپنے کزن حمزہ شہباز کے ہمراہ جب وہ زرداری ہائوس پہنچیں تو ان کا پرتپاک اسقتبال کیا گیا۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری پریس کانفرنس کے دوران

ملک کی اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں کی نئی قیادت کے درمیان یہ پہلی سیاسی ملاقات تھی۔ آج سے 13 سال قبل مئی  میں مریم اور بلاول کے والدین کی اسی طرح کی ایک ملاقات کے نتیجے میں تاریخی میثاق جمہوریت طے پایا تھا۔ سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور بے نظیر کے درمیان لندن میں طے پانے والے میثاق جمہوریت کی بازگشت اپوزیشن پریس کانفرنس میں بھی سنائی دی۔
بلاول اور مریم دونوں نے میثاق جمہوریت کو تاریخی دستاویز قرار دیا۔ مریم نواز نے کہا کہ میثاق جمہوریت ہی کی بدولت ملکی تاریخ میں پہلی بار دو سول حکومتوں نے اپنی پانچ پانچ سالہ مدت پوری کی اور پرامن اقتدار کی منتقلی ممکن ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ یہ میثاق ختم نہیں ہوا ہم اس میں مزید تبدیلیاں لائیں گے۔ بلاول کا کہنا تھا کہ میثاق جمہوریت میں نئی شقیں ڈال کر مزید جماعتوں کو اس میں شامل کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ میثاق جمہوریت میں ہی طے پایا تھا کہ آئین میں ترمیم کر کے صوبوں کو خودمختاری دی جائے گی، الیکشن کے  لئے نگران حکومت اپوزیشن کی مشاورت سے تشکیل پائے گی۔ اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی کی پبلک اکاونٹس کمیٹی کا سربراہ ہو گا۔ اسی میثاق میں طے پایا تھا کہ مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی ایک دوسرے کی حکومتوں کو مدت پوری کرنے کا موقع دیں گی۔
افطار ڈنر میں شریک بلاول، مریم، شاہد خاقان عباسی، مولانا فضل الرحمن، میاں افتخار حسین، میر حاصل بزنجو اپوزیشن کے دیگرچیدہ چیدہ رہنمائوں نے حکومت کے خلاف عید کے بعد تحریک چلانے پر غور کیا مگر طے یہ پایا کہ حتمی فیصلہ مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں کیا جائے گا۔ یہ کانفرنس عید کے بعد بلائی جائے گی۔

افطار ڈنر میں بلاول اور مریم ملاقات کے دوران

گو کہ مسلم لیگ نواز کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے واضح کیا کہ تحریک کا مقصد حکومت گرانا نہیں بلکہ مہنگائی، بے روزگاری جیسے عوامی مسائل کا حل ہے مگر پریس کانفرنس میں اپوزیشن کے لب و لہجے سے اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ حکومت کو آنے والے دنوں میں شدید سیاسی مشکلات کا سامنا ہو گا۔
اس موقع پر پیپلز پارٹی کی جانب سے میڈیا کوجاری ایک ویڈیو میں پارٹی رہنما خورشید شاہ کی آواز بھی سنائی دی۔ ویڈیو میں خورشید پوچھ رہے تھے کہ اپوزیشن قومی حکومت کا قیام چاہتی ہے یا پھر قبل از وقت نئے انتخابات کی طرف جانا ہے؟
اپوزیشن اجلاس کی ایک اور خاص بات فاٹا سے تعلق رکھنے والے ممبران اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر کی شرکت تھی۔ افواج پاکستان پر تنقید کے باعث عام طور پر ان دو رہنمائوں کو مقامی میڈیا میں کوریج نہیں دی جاتی۔ اتوار کی پریس کانفرنس میں جب محسن داوڑ اپنی باری پر بولنے لگے تو صحافیوں نے آواز لگائی کہ آج کھڑے ہو کر بات کریں شاید آپ کی خبر چل جائے۔
 

شیئر: