Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایئر بیگز مسافروں کو حادثات میں کیسے محفوظ رکھتے ہیں؟

ایک فرضی حادثے میں ائر بیگ کے پھولنے کا منظر
پاکستان نیشنل ہائی ویز اتھارٹی کی گذشتہ برس کی سالانہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سڑکوں پر ہونے والے حادثات کی وجوہات میں ڈرائیور کی بے احتیاطی، تیز رفتاری، بریک کا فیل ہونا، غلط اوور ٹیکنگ، تکنیکی خرابی اور پیدل چلتے ہوئے لوگوں کا غلط طریقے سے سڑک پار کرنا شامل ہیں۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی 2018 کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں ہر سال ساڑھے 13 لاکھ لوگ ٹریفک حادثات کا شکار ہوتے ہیں جبکہ پاکستان میں روڈ سیفٹی کے حوالے سے کام کرنے والے ایک غیر سرکاری ادارے ’روڈ سیفٹی پاکستان‘ کا کہنا ہے کہ ملک میں ہر سال 25 ہزار لوگ ٹریفک حادثات میں مر جاتے ہیں۔
تاہم حالیہ ٹریفک حادثات خاص طور پر پیپلز پارتی کے رہنما قمر الزمان کائرہ کے جواں سال صاحبزادے کی حادثے میں ہلاکت کے بعد یہ بحث چھڑی ہے کہ پاکستان میں حادثوں کے نتیجے میں ہلاکتوں سے بچنے کے لیے گاڑیوں میں ایئر بیگز نہیں ہوتے۔
لیکن یہ ایئر بیگز کیا ہیں اور کیسے مسافروں کو حادثات سے بچا سکتے ہیں؟
ایئر بیگز
ایئر بیگ نائلون کا ایک لچکدار کپڑا ہوتا ہے جو عموماً گاڑی سٹئیرنگ وہیل اور ڈیش بورڈ میں لگا ہوتا ہے۔
جب کسی گاڑی کی رفتار زیادہ ہو جاتی ہے تو گاڑی میں موجود ایک آلہ ایکسسلرو میٹر سینسر کو خبردار کرتا ہے تو ایئر بیگز پھول جاتے ہیں اور گاڑی میں موجود لوگوں کو ممکنہ حادثے کی صورت میں زخمی ہونے یا جانی نقصان سے بچا لیتے ہیں۔
ان ایئر بیگز کے نظام میں سوڈیم ایزائڈ اور پوٹاشیم نائٹریٹ سے نائٹڑوجن گیس پیدا ہوتی ہے اور نائٹڑوجن کی گرم ہوا سے یہ ایئر بیگز پھول جاتے ہیں۔

روڈ سیفٹی اقدامات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا
پاکستان میں آٹو موبائل کی نیشنل سٹینڈرڈ کمیٹی کے رکن اور روڈ سیفٹی کے ماہر قیصر قٹانہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں سڑکوں کے حادثات کم ہونے کی بجائے زیادہ ہو رہے ہیں۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے قیصر قٹانہ نے بتایا کہ ’نہ تو یہاں لوگ اور نہ گاڑی بنانے والی کمپنیاں روڈ سیفٹی پر توجہ دیتی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ یورپ کی گاڑیوں میں آٹھ آٹھ ائر بیگس ہوتے ہیں اور یہاں لگژری گاڑیوں میں صرف دو ائر بیگس لگے ہیں۔
قیصر قٹانہ کے مطابق ’ہر گاڑی میں آٹھ آٹھ ائر بیگس ہونے چاہئیں، گاڑیوں میں ائر بیگس لگانے پر زیادہ خرچ آتا ہے، اور اس کے لگانے کے لیے الگ چارجز لیے جاتے ہیں جس کا مطلب کہ سیفٹی کو بھی بیچا جارہا ہے، اگر سڑکوں پر حادثات کم کرنے ہیں تو تحفظ کے لیے اقدامات بھی لینے ہوں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت روڈ سیفٹی کے حوالے سے اب سنجیدہ دکھائی دے رہی ہے اور آگاہی کے پروگرامز بھی چلا رہی ہے لیکن لوگ اب بھی روڈ سیفٹی اقدامات کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔
نیشنل ہائی ویز اتھارٹی کے ترجمان کے مطابق موٹروے پولیس نے روڈ سیفٹی کے حوالے سے طالب علموں میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے پانچویں جماعت تک نصاب بھی متعارف کروایا ہے۔


فوٹو: نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹرویز پولیس ویب سائیٹ

گاڑیوں میں ائر بیگس کو لازمی قرار دیا جائے
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر صارفین نے کہا ہے کہ گاڑیوں میں ائر بیگس کو لازمی قرار دیا جائے۔
 ٹوئٹر پر ایک صارف نور جبیں لکھتی ہیں کہ روزانہ قیمتی جانیں سڑکوں پر ہونے والے حادثات میں ضائع ہوجاتی ہیں۔
وہ لکھتی ہیں’ایک بڑی رقم خرچ کرنے کے بعد بھی گاڑیوں میں ائر بیگس نہیں ہوتے، گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کی اجارہ داری ختم ہونی چاہیے۔‘

ایک اور صارف عالم زیب نے ٹویٹ کیا ہے کہ پاکستان میں آج کل لوگ گاڑیوں کے معیار اور اس میں ائر بیگس کی غیر موجودگی کے حوالے سے بحث کر رہے ہیں تاہم انہوں نے اس بات کو محسوس نہیں کیا کہ جب آپ سیٹ بیلٹ باندھیں گے تو تب ہی ائر بیگ کام کرے گا۔ پاکستان میں موٹرویز پر ڈرائیونگ کے علاوہ باقی  کہیں بھی سیٹ بیلٹ باندھنے کی پابندی نہیں کی جاتی، موٹر وے پر سیٹ بیلٹ باندھنا لازمی ہے۔‘

انٹرنیٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق ائر بیگس کو سنہ 1970 کی دہائی میں متعارف کرایا گیا تھا  لیکن سنہ 1980 کی دہائی کے آخر اور سنہ 1990 کی دہائی کے آغاز میں کچھ گاڑیوں میں یہ ائر بیگس ڈرائیور کی سیٹ اور فرنٹ سیٹ پر نصب کیے گئے تھے۔

شیئر: