Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

میں کس کے ہاتھ پراپنا لہو تلاش کروں؟

10 سالہ فرشتہ کے قتل پرعوام میں غم وغصے کی لہر موجود ہے
ہر روز میں بازاروں میں گھسیٹا جاتا ہوں۔ ہر شام شامِ غریباں ہوتی ہے۔ ہر صبح نئی صفِ ماتم بچھتی  ہے۔ زندگی یونہی تمام ہوتی ہے۔
ایک  دنیا  میری لاش پر افسوس کرنے آتی ہے۔ کچھ  لوگ تصویر بنا کرچلے جاتے اورکچھ لوگ چشمے  پہن کر افسوس کر کے، کچھ  روز میرا نام  ہر سَمت گونج اٹھتا ہے اور پھر ایک دم سب ہی بھول جاتے ہیں۔ کیا میں اس قوم کا بچہ نہیں؟ کیا میں اس مٹی سے جُڑا ہوا نہیں؟ کیا ہے میری شناخت؟ کیا تمہیں میرے  لہو کی بو نہیں آتی؟ کیا میری چیخیں ایوانوں کے ستون نہیں ہلاتیں؟ کیا تم کو میرے ادھورے خواب نہیں ستاتے؟ 
ہر روپ  میں مَرا ہوں میں۔ کبھی لڑکی بن کر تو کبھی لڑکے کےروپ میں۔ ہر گلی سے اٹھایا گیا ہوں میں۔ ہر نالی سے ملی ہے میری لاش۔ اِس پاک سَر زمین میں کوئی ایسا کونا نہیں ہے جس میں چُھپ جاؤں میں، جہاں بچ جاؤں میں۔ 
یوں لگتا ہے کہ سارا جہاں مل کر میری  ہی طاق  میں لگ گیا ہو، مجھے ہی  مٹانے کے لیے کوشاں ھو۔ کبھی اندھیروں تو کبھی اجالوں میں جلا ہوں میں،  مجھے ہرہاتھ اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ کوئی چہرہ مُسکراتا نظر آتا ہے تو کوئی غصّہ ہمیں دِکھاتا ہے۔ کوئی تلوار سے کاٹ ڈالتا ہے تو کوئی آگ میں جلاتا ہے۔ ہمارے حق کی بات کوئی نہیں کرتا۔

زینب قتل کیس میں بھی انتظامیہ اس وقت متحرک ہوئی تھی جب قصور میں مظاہرے شروع ہوئے تھے

ہر طرح میرا استحصال ہی ہوا ہے، کیا میرا یہی انجام ہے؟ میں ہر بار برے  لوگوں کے ہاتھ ہی کیوں لگتا ہوں۔ کبھی جنسی ہراساں کیا جاتا ہوں، کبھی ماسٹر کے  ڈنڈے کھا کر اپاہج ہوا ہوں، کبھی ماں باپ سے دوری پر درندوں نے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا ہے۔ کبھی خاندان کی عزت میرے لہو نے بچائی ہے اور اُس پر ظلم یہ کہ اِس معصوم کی زبان سے ڈر گئے تھے، ڈر گئے  کہ یہ  سچ بول دے گا اس لیے مار ڈالا تھا۔  
کسی کے ماں باپ حج پر گئے اور واپسی پر میں نہ تھا کوئی ہمسائے سے پیسے لینے گیا تو نا لوٹا، کوئی عزت سے روٹی کما کر گنہگار ہوا تو کوئی  مالک کی پلیٹ سے نوالہ اٹھانے پر موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ کبھی خوبصورت شکل میرے قتل کی وجہ بنی اور کبھی خاندانی جھگڑوں نے ڈائن بن کر مجھے  ہی کھا لیا۔  
مجھے ہمیشہ ہی قربانی  کا بکرا بنایا گیا کیا میں تمہارا نہیں؟ تم ہر دن میری موت کی خبریں سنتے ہو اور خاموش ہو جاتے ہو۔

تم ہر دن میری موت کی خبریں سنتے ہو اور خاموش ہو جاتے ہو (اے ایف پی فوٹو)

میں انصاف کے تَرازو سے بھی مل کر آیا ہوں میں نے اِنصاف سے بھی پوچھا کہ بھائی  کیا میرے لیے کوئی قانون  نہیں ہے؟ کیا مجھے مارنے  والوں کا سراغ کوئی نہیں لگائے گا؟ کیا اِن انسانی بھیڑیوں کو کوئی کیفر کردار تک نہیں  پہنچائے گا؟ انصاف کا ترازو  پہلے  تو خاموش رہا اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رو دیا کہ میں پشیمان اے  بنی آدم میں تمہیں انصاف نہ دلا پایا ہوں، اِن درندوں نے مجھے بھی خرید رکھا ہے۔ قانون لونڈی ہے ان کے  ہاتھ کی، جسے یہ جب چاہیں اپنی رکھیل بنا لیں۔ انصاف کا ملنا قریب قریب نا ممکن ہے  اور اگر قانون موجود بھی ہے تو کوئی پاسداری  کروانے والا نہیں۔ اگر میں توازن رکھوں بھی تو کیسے رکھوں۔
کبھی جاننے کی کوشش کی ہے کے  آٹھ سال کا بچہ / بچی کتنے فحش کپڑے پہن سکتے ہیں کہ جنسی درندوں کی ہوس  کا شکار ہوں، کوئی بھی کمسن عمر کا بچہ / بچی  کتنا اُکسا سکتا ہے کسی کے جذبات کو، کہ وہ  آگے بڑھ کر انہیں اپنی ہوس کا نشانہ بنا لیں اور بعد میں جلا کر یا کاٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیں۔ کیسے لوگ ہو تم بچوں کے  روز روزمرنے سے بے حس ہو چکے ہو۔ تم ان معصوموں کی آہ و پکار،اُن کی فریاد نہیں سنتے اور خود کو دھوکے میں رکھے ہو کہ تم اب بھی اِک زندہ قوم ہو مگر افسوس کہ تم لوگ تو کب کے مر چکے ہو۔ ان مرے ہوؤں کی بستی میں کس کے ہاتھ پراپنا لہو تلاش کروں۔

شیئر: