Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جیسن رائے کی امپائر کو ٹکر اور کوہلی کو 500 روپے جرمانہ

بانی کرکٹ برطانیہ کی سرزمین پر جینٹل مین گیم کا دھوم دھڑکا جاری ہے۔ کرکٹ کی عالمی جنگ کون جیتے گا اس کا فیصلہ ہونا تو ابھی باقی ہے لیکن اگر کرکٹ ورلڈ کپ کے آغاز سے اب تک نظر دوڑائیں تو یہ ورلڈکپ 1992 سے کافی مماثلت رکھتا ہے۔
اس کی افتتاحی تقریب کرکٹ گراؤنڈ سے باہر منعقد ہوئی جو اس ورلڈ کپ کو انوکھا بنا رہی ہے تاریخ میں پہلی بار بکنگھم پیلس میں ہونے والی شاندار تقریب میں کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ فنکاروں نے بھی رنگ جمایا۔
اس ورلڈ کپ کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اسے راؤنڈ رابن فارمیٹ کی طرز پرکھیلا جا رہا ہے جیسا کہ 1992 کے ورلڈ کپ میں تھا۔
حالیہ ورلڈ کپ میں جب 7 جون کو پاکستان نے اپنا تیسرا میچ سری لنکا کے ساتھ کھیلنا تھا، ڈھائی بجے سے لیکر ساڑھے سات بجے تک ٹی وی سکرین کے آگے بیٹھنے کے بعد پتہ چلا کہ میچ بارش کے باعث منسوخ ہو گیا ہے اور دونوں ٹیموں کو ایک ایک پوائنٹ مل گیا ہے۔
اس وقت پاکستانی فینز کو گھنٹوں انتظار کرنے کے بعد شدید غصہ بھی آیا مگر کیا کریں بارش ہے جس پر کسی کا بس نہیں چلتا۔
یہاں آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ اس میں 1992 کے ورلڈکپ کی جھلک دکھائی دی جب پاکستان کا انگلینڈ کے ساتھ  تیسرا میچ بارش کی وجہ سے بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوگیا تھا۔
1992 کے ورلڈ کپ سے موازنہ کرتے ہوئے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر صارفین مختلف پہلووں کو جوڑ کر یہ پیشگوئیاں کر رہے ہیں کہ اب کی بار بھی ورلڈ کپ پاکستان کا ہی ہوگا۔
خیر یہ تو آگے چل کر معلوم ہو گا کہ کیونکہ یہ سفر لمبا ہی نہیں بلکہ کٹھن بھی ہے۔ لیکن سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر صرف فاتح ٹیم کی باتیں نہیں ہو رہی ہیں بلکہ انٹرنینشل کرکٹ کونسل اس پلیٹ فارم کو قدرے مختلف انداز میں پیش کر رہا ہے یا یہ کہیں کہ میچوں سے ہٹ کر بھی دیگر موضوعات پر خبریں دی جا رہی ہیں جیسا کہ آئی سی سی کے ٹویٹر پیج پر کہیں پروفیسر حفیظ کی مونچھوں کا تاؤ نظر آرہا ہے تو کہیں پاکستانی کوچ مکی آرتھر کے انٹرویوز۔
یہی نہیں بلکہ صارفین سے کھلاڑیوں سے متعلق دلچسپ سوالات بھی پوچھے جا رہے ہیں۔ پاکستان سمیت ہر ٹیم کے کھلاڑی اور کرکٹ لورز بچے، بوڑھے، خواتین سب ہی چٹ چیٹ کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

آئی سی سی جب حفیظ کے مونچوں کے بارے میں بات کر رہا تھا تو دھونی چپکے سے انڈین فوج کے نشان والے گلورز پہن کر میدان میں آ گئے لیکن ان کو معلوم نہیں تھا کہ آج کے دور میں حکام سے زیادہ کرکٹ فینز باریک سے باریک چیزوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
دھونی کے گلوز کی دھوم سوشل میڈیا پر ہوئی اور ساتھ میں تنقید اور حمایت شروع ہو گئی ایسا لگا جیسے سوشل میڈیا میدان جنگ بن گیا ہو۔
اسی 'جنگ' میں پاکستانی فینز نے تو کچھ عرصہ پہلے آسٹریلیا کے خلاف میچ میں انڈین کرکٹ ٹیم کی فوجی کیپس کے ساتھ تصاویر شیئر کر کے آئی سی سی کے کردار پر سوال اٹھانے شروع کر دیے۔
خیر گلوز پہننے پرسوشل میڈیا پرتنقید کے چوکے چھکے خوب لگے جس کے بعد آئی سی سی نے بھارتی بورڈ کو وارننگ دیتے ہوئے دھونی کو گلوز بدلنے کی ہدایت کر دی ہے۔
اگرچہ ورلڈ کپ انگلینڈ میں ہو رہا ہے لیکن کھلاڑیوں کے آبائی ملکوں میں بھی ان کے گھروں کے علاوہ گاڑیوں پر بھی لوگوں کی نظریں ہیں۔
ایسا ہی واقعہ تب ہوا جب انڈین کپتان کوہلی کے ڈرائیور نے بھارت میں ان کے گھر پر پینے کے پانی سے گاڑی دھو ڈالی اور میونسپل کارپوریشن نے 500 روپے کا جرمانہ ویرات کوہلی کے نام پر بھیج دیا ہے۔

جنوبی افریقہ پر قسمت کی دیوی اس بار بھی مہربان نظر نہیں آرہی۔ ٹیم کی پے درپے شکست پر جارج مذاج پروٹیز بیٹسمین اے بی ڈویلیئرز ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ایک بار پھر پیڈ پہنے کے لیے تیار ہیں جبکہ فاسٹ بولر ڈیل سٹین جن پر سب کی نظریں تھیں وہ کندھے کی انجری کے باعث وطن واپس لوٹ گئے ہیں اور جنوبی افریقہ اپنے پہلے تینوں میچ ہار چکی ہے۔
اُدھر آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کے میچ میں نو بال کا تنازع اس وقت سامنے آیا جب مچل سٹارک کی گیند پر کرس گیل کو آؤٹ قرار دے دیا گیا۔ گیل جس گیند پر آؤٹ ہوئے اس سے پہلی گیند نو بال ہونی چاہیے تھی مگر امپائر کا دھیان شاید کسی اور طرف تھا لہذا شائقین کرکٹ نے اس واقعے پر ناصرف امپائر بلکہ آئی سی سی کو بھی آڑے ہاتھوں لے رکھا ہے۔
مچل سٹارک نے پریس کانفرس کے ذریعے شائقین کو اپنی صفائی پیش کی مگر خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی اور سوشل میڈیا پر بحث و مباحثہ عروج پر ہے۔
ایک اور دلچسپ واقعہ تب پیش آیا جب بنگلہ دیشن کے خلاف میچ کے دوران انگلیڈ کے اوپنر جیسن رائے سنچری مکمل کرنے کے لیے آخری رن لیتے ہوئے امپائر سے ٹکرا گئے۔ ادھر جیسن رائے کی سنچری مکمل ہوئی اور اُدھر امپائر زمین پر گر گئے۔ ساتھی کھلاڑی اس وقت کشمکش میں مبتلا تھے کہ وہ جیسن کو سنچری کی داد دیں یا پھر امپائر کے گرنے پر افسوس کریں۔

شیئر: