Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

2300 سال پرانے دنیا کے پہلے روشن مینار کی تاریخ

اسکندریہ کا روشن مینار زمانہ قدیم کی مشہور ترین عمارتوں میں سے ایک تھا۔
اسکندریہ کے روشن مینار کا شمار زمانہ قدیم کے سات عجائب میں ہوتا ہے۔ اسے اسکندریہ کا لائٹ ہاﺅس بھی کہا جاتا ہے۔ یورپی زبانوں میں اسے ’فنار‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کا یہ نام اس جزیرے کے نام سے لیا گیا ہے جہاں یہ تعمیر کیا گیا تھا۔
یہ زمانہ قدیم کی مشہور ترین عمارتوں میں سے ایک سمجھا ہے۔ اسے دنیا کے پہلے روشن مینار ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ 2300 برس قبل یونانی ماہر تعمیرات (سوسٹراٹوس) نے اسے بطلیموس دوم کے عہد میں تعمیر کیا تھا۔
اس 100میٹر سے زائد بلند مینار کو مصر کے ساحلی شہر اسکندریہ کے قریب بحیرہ روم کے تاریخی جزیرے فاروس میں تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ مینار 1500 برس تک قائم رہا۔

اسکندریہ کا روشن مینار جسے لائٹ ہاؤس بھی کہا جاتا ہے، کا شمار زمانہ قدیم کے سات عجائب میں ہوتا ہے۔

اسکندریہ کا مینارکیوں تعمیر کیا گیا؟

سکندر اعظم نے اسکندریہ شہر 332 قبل مسیح میں آباد کیا تھا۔ اسے بحیرہ روم کی مرکزی بندرگاہ کا رتبہ حاصل ہوگیا تھا۔ بندرگاہ کی بدولت شہر خوب پھلا پھولا اور جلد ہی قدیم دنیا کا اہم شہر بن گیا۔ اس نے اپنی لائبریری کی وجہ سے بھی دنیا بھر میں بڑا نام کمایا۔ یہ لائبریری دنیا کے ہر علاقے میں رائج علوم و فنون کے خزانے اپنے اندر سمیٹے ہوئے تھی۔ 
دنیا بھر کے لوگ سیر و سیاحت کےلیے اسکندریہ شہر آنا چاہتے تھے۔ اس سلسلے کی سب سے بڑی رکاوٹ اسکندریہ بندرگاہ کے قریب گدلا پانی اور زیرآب چٹانیں تھیں۔ بطلیموس اول نے اس پر قابو پانے کے لیے مینار تعمیر کرنے کا حکم جاری کیا۔
اسکندریہ کا روشن مینار 40 برس میں مکمل ہوا۔ یہ 250 قبل مسیح میں پایہ تکمیل کو پہنچا۔

قدیم دنیا کی فقید المثال عمارت

اسکندریہ کے مینار سے متعلق اب بہت ساری معلومات ماضی کا قصہ بن چکی ہیں۔ البتہ یہ سوال ابھی باقی ہے کہ یہ مینار کیسا نظر آتا تھا۔ اس کا کچھ نہ کچھ اندازہ تاریخ و جغرافیہ کی کتابوں اور سیاحت ناموں کے مطالعے سے لگایا جا سکتا ہے۔ مینار قدیم اسکندریہ کی علامت بن گیا تھا۔ اس کی تصویر قدیم کرنسی سمیت مختلف اشیا اور مقامات پر ملتی ہے۔

اسکندریہ کے مینار کی تباہی کے بعد اس کی جگہ ایتبائی کا قلعہ تعمیرکیا گیا ہے۔

اسکندریہ کا مینار کم از کم 450 فٹ اونچا تھا اور اس کا ڈھانچہ دیوہیکل اورخوش منظر تھا۔ یہ اسکندریہ بندرگاہ کے گیٹ کے قریب جزیرہ فاروس کے مشرق میں بنایا گیا تھا۔
مینار کا زیریں حصہ چوکورتھا جس میں سرکاری دفاتر کے ساتھ ساتھ اصطبل بھی تھے۔ مینارمیں کارکنان اور اہل خانہ کے لیے زیریں منزل میں 300 کمرے بنائے گئے تھے۔ دوسری منزل 8 کونوں والی تھی جس میں بالکونی بھی بنائی گئی تھی، جہاں سے سیاح قدرتی مناظرکا لطف اٹھاتے اور نشاط انگیز مشروب پیا کرتے تھے۔
مینار کا بالائی حصہ استوانی شکل کا تھا۔ مینارمیں 180 فٹ کی بلندی پر ہمہ وقت آگ جلتی رہتی تھی۔ اوپر والے حصے میں سمندر کے دیوتا ’بوسیڈن‘ کا مجسمہ بھی نصب کیا گیا تھا۔
اسکندریہ کے دیوہیکل مینار کے اندر ڈھلوانی شکل کا عجیب و غریب زینہ بنایا گیا تھا، جہاں سے گھوڑوں کے ذریعے مینار کی بالائی منزلوں تک ضرورت کا سامان پہنچایا جاتا تھا۔
ابھی تک یہ راز دریافت نہیں ہوسکا کہ مینار کے اوپر آگ جلانے کے لیے کیا طریقہ کاراستعمال کیا جاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ آگ کی روشنی بڑے بڑے شیشوں سے منعکس ہوکر 50 کلومیٹر تک پھیل جاتی تھی اور سمندری جہازوں کو راستہ دکھایا کرتی تھی۔ اس کی روشنی تیز ہوتی۔ اس کی بدولت ملاح میلوں دور سے اپنا راستہ تلاش کر لیتے تھے۔


اسکندریہ کا مینار 700 برس قبل زلزلوں کی وجہ سے تباہ ہو گیا تھا۔ (فوٹو:اے ایف پی)

زلزلوں نے عجوبہ روزگار مینارہ زمین بوس کردیا

اسکندریہ کا روشن مینارریکارڈ مدت تک قائم رہا۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ 40 منزلوں پر مشتمل انتہائی بلند مینار تھا اوراس کی عمارت شگاف والی تھی۔ اسکندریہ کے روشن مینار نے یونانی، رومانی اور مصر کے اسلامی اقتدار میں آ جانے کے بعد اسلامی عرب شہنشائیت کا زمانہ دیکھا۔ اس کی اہمیت اس وقت ماند پڑگئی جب مصر کا دارالحکومت اسکندریہ سے قاہرہ منتقل ہوا۔
اسکندریہ کا مینارجو کئی صدیوں تک سمندر کے مسافروں کی سلامتی کو یقینی بناتا رہا وہ 700 برس قبل 1375میں زلزلوں کی وجہ سے تباہ ہو گیا۔
اسکندریہ کے مینار کی جگہ قایتبائی کا قلعہ تعمیرکیا گیا ہے۔ مینار کے کچھ پتھر قلعے کی تعمیر میں استعمال ہوئے جبکہ دیگر سمندر کا حصہ بن گئے۔
فرانس کے ماہر آثار قدیمہ ’جان ایف امبرور‘ نے 1994 میں اسکندریہ بندرگاہ کے علاقے میں تحقیقاتی کام کے دوران مینار کے کچھ پتھر سمندر کی تہہ سے دریافت کیے تھے۔ 


1994 میں اسکندریہ بندرگاہ کے علاقے میں تحقیقاتی کام کے دوران مینار کے کچھ پتھر سمندر کی تہہ سے دریافت ہوئے تھے۔ (فوٹو:اے ایف پی)

اسکندریہ قدیم دنیا کا اہم شہر رہا ہے یہاں ملاح اور تاجر کثیر تعداد میں آتے جاتے رہتے تھے۔ متعدد مؤرخین، جغرافیہ نویسوں اور سیاحوں نے اپنی تصانیف میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔
مشہور سیاح ابن بطوطہ ان سیاحوں میں سے ایک ہیں جنہیں جذبہ سیاحت اور شوق جستجو اسکندریہ لے گیا تھا۔ مؤرخین میں سے المسعودی، المقریزی اورابن ایاس کے نام قابل ذکر ہیں۔ 

اسکندریہ کی قدیم لائبریری

642 میں اسکندریہ کی قدیم لائبریری تباہ ہو گئی تھی جسے مصر نے اقوام متحدہ کے تعاون سے اسکندریہ کے الشاطبی نامی علاقے میں جدید انداز میں بحال کر دیا تھا۔ اس کا افتتاح 16اکتوبر 2002 کو ہوا۔ لائبریری میں عربی، انگریزی، فرانسیسی، اطالوی، سپینی اور جرمن زبانوں میں شاندار کتابیں موجود ہیں۔ دنیا کی نایاب زبانوں کا لٹریچر بھی یہاں لایا گیا ہے۔ اس میں دنیا کی دوسری بڑی فرانسیسی لائبریری اورانٹرنیٹ سینٹر بھی بھی قائم کیا گیا ہے۔ اس کے تحت 6 سپیشل لائبریریاں، 3 عجائب گھر، فضائی گنبد اور بچوں کے لیے سائنسی نمائشوں کا ہال بھی کھولا گیا ہے۔ انٹرنیشنل کانفرنس سنٹر اور7 سپیشل ریسرچ سنٹر بھی یہاں موجود ہیں۔

شیئر: