Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’مصنوعی ذہانت آگئی، آگے کیا ہوگا‘ عرب نیوز کی برج سمٹ سے قبل میڈیا کے مستقبل پر رپورٹ

عرب نیوز کی رپورٹ میں مصنوعی ذہانت کے بڑھتے ہوئے اثرات اور میڈیا انڈسٹری میں اس کے کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے (فوٹو: عرب نیوز)
ابوظبی میں پیر کو برج سمٹ کا آغاز ہوا جس میں دنیا بھر کے رہنما اور ماہرین میڈیا، تفریح اور تخلیقی معیشت کے مستقبل پر تبادلہ خیال کے لیے جمع ہوئے۔
اس موقع پر عرب نیوز نے ایک جامع رپورٹ جاری کی ہے جس میں مصنوعی ذہانت کے بڑھتے ہوئے اثرات اور میڈیا انڈسٹری میں اس کے کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
یہ رپورٹ دبئی فیوچر فورم میں منعقدہ ایک اعلیٰ سطحی گول میز اجلاس کے بعد تیار کی گئی جس میں ایڈیٹرز، میڈیا ایگزیکٹوز اور ٹیکنالوجی ماہرین نے شرکت کی۔ اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ اے آئی اب صرف ایک رجحان نہیں بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں معیشت، حکمرانی اور عوامی رابطے کو تشکیل دینے والی ایک بنیادی قوت بن چکی ہے۔
ماہرین کے مطابق 2030 تک اے آئی خطے کی معیشت میں 320 ارب ڈالر کا اضافہ کرے گی، جس میں سعودی عرب کے جی ڈی پی میں 135 ارب ڈالر اور متحدہ عرب امارات میں 96 ارب ڈالر شامل ہیں۔ تاہم، میڈیا کے لیے یہ صرف معاشی موقع نہیں بلکہ اعتبار اور حقائق پر مبنی رپورٹنگ کے بنیادی اصولوں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ کس طرح اے آئی نیوز رومز میں کام کے طریقہ کار کو بدل رہی ہے۔ یو اے ای کے معروف اخبار ’دی نیشنل‘ کی ایڈیٹر انچیف مینا العربیی نے کہا کہ ’ہم نے حال ہی میں ایک مکمل نیوز روم ورکشاپ منعقد کی تاکہ اے آئی کے استعمال کے لیے داخلی تجاویز تیار کی جا سکیں۔‘ ان کے مطابق اس اقدام کا مقصد یہ ہے کہ صحافی اے آئی کو ایک مددگار ٹول سمجھیں، نہ کہ خطرہ۔
اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں 81 فیصد صحافی اے آئی ٹولز استعمال کر رہے ہیں جن میں سے تقریباً نصف روزانہ ان پر انحصار کرتے ہیں۔ یہ ٹولز زیادہ تر انٹرویوز کی ٹرانسکرپشن، رپورٹس کا خلاصہ اور ترجمے جیسے کاموں کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ تاہم، ماہرین نے خبردار کیا کہ اے آئی کے غلط استعمال یا غیر شفافیت سے عوامی اعتماد مزید کم ہو سکتا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب 70 فیصد عالمی صارفین آن لائن مواد پر اعتماد کرنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں۔

گول میز اجلاس کا اختتام اس امید پر ہوا کہ اگر اے آئی کو ذمہ داری اور شفافیت کے ساتھ اپنایا جائے تو یہ صحافت کو نئے دور کے لیے مضبوط بنا سکتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

عرب نیوز کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ خطے میں ریگولیشن کا فقدان ایک بڑا خطرہ ہے۔ اگرچہ سعودی عرب نے ڈیٹا اینڈ اے آئی اتھارٹی اور جنریٹیو اے آئی گائیڈ لائنز جیسے اقدامات کیے ہیں، لیکن یورپ کی طرح جامع قوانین ابھی تک موجود نہیں۔ ماہرین نے زور دیا کہ خطے کو اپنی ڈیجیٹل خودمختاری کے لیے مقامی پلیٹ فارمز اور سخت قوانین کی ضرورت ہے۔
گول میز اجلاس کا اختتام اس امید پر ہوا کہ اگر اے آئی کو ذمہ داری اور شفافیت کے ساتھ اپنایا جائے تو یہ صحافت کو نئے دور کے لیے مضبوط بنا سکتا ہے، لیکن اس کے لیے سخت ادارتی نگرانی اور حقائق کی تصدیق ناگزیر ہے۔

 

شیئر: