Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسرائیلی وزیراعظم کو غزہ جنگ بندی کے دوسرے مرحلے میں جلد داخل ہونے کی توقع

غزہ جنگ بندی منصوبے کے دوسرے مرحلے میں حماس کو غیر مسلح کرنا بھی شامل ہے (فوٹو:اے ایف پی)
اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نتن یاہو نے کہا ہے کہ انہیں توقع ہے کہ امریکہ کی سرپرستی میں غزہ کے لیے جنگ بندی منصوبے کا دوسرا مرحلہ جلد شروع ہوگا، اور وہ اس ماہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کریں گے۔
فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق یہ جنگ بندی، جو 10 اکتوبر سے نافذ ہے، اس جنگ کو روک رہی ہے جو 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد شروع ہوئی تھی۔
جنگ بندی کے تحت فلسطینی عسکریت پسندوں نے اس حملے میں پکڑے گئے باقی 47 زندہ اور مردہ یرغمالیوں کو رہا کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اب تک تمام یرغمالیوں کو رہا کر دیا گیا ہے سوائے ایک اسرائیلی پولیس افسر کی لاش کے۔
غزہ جنگ بندی منصوبے کے دوسرے مرحلے میں حماس کو غیر مسلح کرنا، عبوری انتظامیہ قائم کرنا اور ایک بین الاقوامی استحکام فورس تعینات کرنا شامل ہے۔
جرمن چانسلر فریڈرش مرز سے یروشلم میں ملاقات کے بعد نتن یاہو نے کہا کہ ’ہم بہت جلد دوسرے مرحلے میں داخل ہونے کی توقع رکھتے ہیں، جو زیادہ مشکل ہے۔‘
نتن یاہو نے مزید کہا کہ وہ دسمبر کے آخر میں ٹرمپ سے ملاقات کریں گے تاکہ خطے میں ’امن کے مواقع‘ پر بات کر سکیں۔ وزیرِاعظم کے دفتر نے کہا کہ ٹرمپ نے پیر کو فون کال کے دوران نتن یاہو کو وائٹ ہاؤس آنے کی دعوت دی۔
جرمنی کی حمایت کی توثیق
جرمن رہنما، جو اس سال مئی میں اقتدار میں آئے، نے بارہا اسرائیل کی غزہ میں بلا روک ٹوک فوجی کارروائی پر تنقید کی ہے، جس میں ہزاروں فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
مرز نے منصوبے کے اگلے اقدامات پر عمل درآمد پر زور دیا اور کہا کہ جرمنی غزہ کو امداد فراہم کر رہا ہے اور تعمیرِ نو میں حصہ لے گا۔

نتن یاہو کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں مرز نے کہا کہ اسرائیل پر تنقید ’ممکن ہے اور کبھی کبھار شاید ضروری بھی۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

وہ ایک دن پہلے اسرائیل پہنچے، یہ ان کا ملک کا پہلا دورہ تھا جب سے غزہ جنگ نے دونوں ممالک کے روایتی مضبوط تعلقات کو متاثر کیا۔ مرز نے یروشلم میں یاد واشیم ہولوکاسٹ میموریل کے دورے سمیت اپنے سفر کے دوران اسرائیل کے لیے برلن کی حمایت کی توثیق کی۔
انہوں نے کہا کہ ’جرمنی کو اسرائیل کے وجود اور سلامتی کے لیے کھڑا ہونا چاہیے‘، اور اپنے ملک کی ’یہودیوں کے قتلِ عام کی تاریخی ذمہ داری‘ کو تسلیم کیا۔
نتن یاہو کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں مرز نے کہا کہ اسرائیل پر تنقید ’ممکن ہے اور کبھی کبھار شاید ضروری بھی۔‘
’جرمنی اور اسرائیل کے تعلقات اس کو برداشت کر سکتے ہیں۔ لیکن اسرائیلی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کو یہودی مخالف جذبات کے بہانے کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔‘ مرز نے دو ریاستی حل کے لیے جرمن حمایت پر بھی زور دیا۔

 

شیئر: