Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب کے شہر جدہ میں ’حلال ڈسکو‘ کی حقیقت کیا ہے؟

جنرل انٹرٹینمٹ اتھارٹی کی جانب سے کسی بھی ایسے پروگرام کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔
سعودی عرب میں ’حلال نائٹ کلب‘ اور ’حلال ڈسکو‘ کے حوالے سے گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے وڈیو کلپ کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ 
سیزن جدہ کے حوالے سے جنرل انٹرٹینمنٹ اتھارٹی کی جانب سے جاری سرکاری بیان میں کہا گیا کہ سوشل میڈیا پر وائرل وڈیو کلپ کے بارے میں فوری تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے۔ انٹرٹینمنٹ اتھارٹی کو موصولہ اطلاعات کے مطابق جدہ سیزن کے دوران جو کچھ ( project x) میں کیا گیا وہ غیر قانونی عمل تھا جس کی اتھارٹی کی جانب سے قطعی اجازت نہیں دی گئی تھی ۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ جنرل انٹرٹینمٹ اتھارٹی کی جانب سے کسی بھی ایسے پروگرام کی اجازت نہیں دی گئی تھی جسے کسی صورت بھی قبول کرنا ممکن نہ ہو۔ اس ضمن میں اتھارٹی صاف و شفاف انداز میں وسیع پیمانے پر تحقیقات کر رہی ہے اور ذمہ داروں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔

جدہ میں ’حلال نائٹ کلب‘ کی خبر کے حوالے سے تحقیقات جاری ہیں۔  

 واضح رہے ’سیزن جدہ‘  کے عنوان سے جاری تفریحی پروگراموں کے سلسلے میں ایک نجی کمپنی نے از خود ڈسکو کے قیام کا فیصلہ کیا جس کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔ سوشل میڈیا پر کمپنی کی جانب سے جو ایڈورٹائزنگ کی گئی تھی اس میں ’حلال ڈسکو‘ کا تاثر دیا جا رہا تھا۔ 
حلال ڈسکو کے حوالے سے کمپنی یہ بھی تشہیر کر رہی تھی کہ کلب میں کسی قسم کی الکوحل مشروبات استعمال نہیں کی جائیں گی اور نہ ہی غیر مناسب لباس پہننے کی اجازت ہو گی۔ سوشل میڈیا پر جاری اعلانات میں مزید کہا گیا تھا کہ کلب میں 18 برس سے کم عمرافراد کا داخلہ ممنوع ہو گا۔ ڈسکو کے اوقات کے بارے میں انتظامیہ کا کہنا تھا کہ 10 بجے شب سے نمود سحر تک کلب کھلا رہے گا ۔
سوشل میڈیا پر ’حلال ڈسکو‘ کے عنوان سے چھڑنے والی بحث میں لوگوں کا کہنا تھا کہ اس قسم کی سرگرمیاں سعودی عرب کا مزاج نہیں۔ متعلقہ ادارے اس بارے میں فوری نوٹس لیں ۔
اس بارے میں ٹوئٹر پر # ڈسکو _ جدہ کے عنوان سے ہیش ٹیگ غیر معمولی طور پر مقبول رہا جس میں 37 ہزار لوگوں نے اپنی رائے دی۔ اکثریت کا کہنا تھا ’سعودی عرب اپنی روایات برقرار رکھے گا۔‘ متعلقہ اداروں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اس قسم کی سرگرمیوں کی حد مقرر کریں اور انتظامیہ کو پابند کیا جائے کہ وہ مقررہ حدود کا احترام کریں۔

شیئر: