Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک کامیاب ہو گی؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں اپوزیشن کا مکمل ساتھ نہیں دے گی، تصویر: روئٹرز
پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعتیں گذشتہ برس اقتدار میں آنے والی تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف احتجاج کے لیے سرگرم ہیں۔
حکومت کے خلاف احتجاج کی نوعیت اور طریقہ کار طے کرنے کے لیے بدھ کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں اپوزیشن کی کل جماعتی کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس کانفرنس میں حکومت کے خلاف تحریک کے پہلے مرحلے میں جہاں سیاسی جماعتوں نے عوامی رابطہ بڑھانے پر اتفاق کیا وہیں چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی پر بھی اتفاق کیا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی معاشی پالیسیاں اور سیاسی حریفوں کے خلاف احتساب کی کارروائیاں چیئرمین سینیٹ کے خلاف مجوزہ عدم اعتماد کی تحریک کی بڑی وجوہات ہیں۔
چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی کا فیصلہ کیوں کیا گیا ؟
چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی سے اپوزیشن کیا اہداف حاصل کرے گی اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے ’اردو نیوز‘ نے سیاسی تجزیہ کاروں سے رابطہ کیا اور جاننے کی کوشش کی کہ حزب اختلاف چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی پرہی کیوں زور دے رہی ہے؟
سینیئر تجزیہ کار سلمان غنی نے اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کی کل جماعتی کانفرنس سے کسی بڑے فیصلے کی توقع کی جارہی تھی، لیکن اپوزیشن کوئی بڑا فیصلہ نہ کر سکی جس کی وجہ سے اس نے حکومت پر دباؤ ڈالنے کا موقع کھو دیا ہے۔

سینیٹ کے کل 104 ارکان میں سے اپوزیشن کو بظاہر 64 ارکان کی حمایت حاصل ہے

 انہوں نے کہا کہ اے پی سی میں شامل بڑی جماعتوں نے کوئی واضح بات نہیں کی، بلکہ اس میں شامل چھوٹی جماعتیں بھرپور احتجاجی تحریک کی حامی نظر آئیں، لیکن بڑی سیاسی جماعتیں نے کوئی واضح لائن آف ایکشن اختیارنہیں کیا ہے۔
سینیئرصحافی و تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو علامتی تبدیلی قراردیا۔ انہوں نے کہا کہ حزب اختلاف سینیٹ کو اپنا سیاسی مورچہ بنانے جا رہی ہے جہاں ایسا چیئرمین لایا جائے جو حکومت کے لیے نرم گوشہ نہ رکھتا ہو۔
مجیب الرحمان شامی نے کہا کہ صادق سنجرانی کو ان کے منصب سے ہٹانے سے حکومت کے لیے سینیٹ میں قانون سازی مزید مشکل ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ صادق سنجرانی کا رویہ حکومت کی جانب نرم رہا ہے جس کی وجہ سے اب اپوزیشن نے سینیٹ میں حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے لیے انہیں منصب سے ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔
سینیئر صحافی و تجزیہ کار سلیم بخاری نے کہا کہ اے پی سی میں چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کا فیصلہ مسائل کی دلدل میں پھنسی حکومت کے خلاف دباؤ برقرار رکھنے کے لئے کیا گیا ہے۔ اس موقع پر چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد سے حکومت پر بھی دباؤ مزید بڑھے گا۔ اس کا ایک مقصد ماضی میں کی گئی ان غلطیاں کو بھی درست کرنا ہے جن سے تحریک انصاف کو فائدہ ہوا ہے۔
سینیئرتجزیہ کار سلمان غنی کے مطابق اے پی سی میں نہ صرف اپوزیشن جماعتوں کے درمیان اختلاف پایا گیا بلکہ انہوں نے مسلم لیگ ن کے اندر بھی اختلافات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مریم نواز نے اے پی سی میں جارحانہ انداز اپنائے رکھا جبکہ مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے کوئی سیاسی بات نہیں کی۔

چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کے لیے عددی تعداد

مشترکہ اپوزیشن کی ایوان بالا میں میں اگر عددی تعداد پرنگاہ ڈالی جائے تو اس کی واضح برتری نظر آتی ہے ۔ سینیٹ میں مشترکہ اپوزیشن کو 104 کے ایوان میں 64 ارکان کی حمایت حاصل ہے، تاہم اے پی سی میں شرکت سے انکار کرنے والی متحدہ مجلس عمل میں شامل جماعت اسلامی کے دو سینیٹرز کی حمایت متحدہ اپوزیشن کو ملنے کے امکانات بھی کم ہیں۔ اس طرح حکومتی اتحاد کو سینیٹ میں 40 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ یوں عددی تعداد کے حساب سے مشترکہ اپوزیشن کی چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے میں کوئی واضح رکاوٹ نظر نہیں آتی۔

اپوزیشن جماعتوں نے تاحال چیئرمین سینیٹ کے لیے اپنے کسی امیدوار کے نام کا اعلان نہیں کیا

کیا متحدہ اپوزیشن چیئرمین سینیٹ تبدیل کرنے کے فیصلے پر قائم رہے گی؟

واضح رہے کہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے انتخاب میں سب سے اہم کردار پیپلز پارٹی نے ادا کیا تھا۔ اب پیپلز پارٹی اپنے ہی منتخب کردہ چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے پر متفق ہو گئی ہے۔
اس حوالے سے سینئیر صحافی سلیم بخاری کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں میں کئی معاملات پر اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ انہوں نے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا کہ پیپلز پارٹی چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کے معاملے پر مشترکہ اپوزیشن کا مکمل ساتھ نہیں دے گی۔ انہوں نے کہا کہ مشترکہ اپوزیشن کو پیپلز پارٹی کی وجہ سے ہزیمت اٹھانا پڑ سکتی ہے۔
سلیم بخاری کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اس وقت نیب کیسز کی وجہ سے شدید دباؤ میں ہے اور مشترکہ اپوزیشن کا چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد لانے کے فیصلے پر قائم رہنا بھی مشکل ہے۔
سینئیر تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی نے اس حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی کے پاس اس فیصلے سے واپسی کا راستہ موجود نہیں۔ نیب کی کارروائیوں کے بعد آصف علی زرداری کے اوپر بھی دباؤ بڑھ چکا ہے جس کے بعد ان کے پاس اپوزیشن کو مضبوط کرنے کے علاوہ دوسرا آپشن موجود نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن اس فیصلے کو منطقی انجام تک پہنچانے میں پوری کوشش کرے گی اور اس فیصلے کے راستے میں دیوار کھڑی کرنا ممکن نہیں۔

 پیپلز پارٹی اپنے ہی منتخب کردہ چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے پر متفق ہو گئی ہے

سینیئر صحافی سلمان غنی نے چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کو ناقابل عمل قرار دیتے ہوئے کہا کہ آصف علی زرداری جن قوتوں کی وجہ سے صادق سنجرانی کو بطورچیئرمین سینیٹ منتخب کروانے پر مجبور ہوئے تھے وہ قوتیں اب بھی موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مشترکہ اپوزیشن میں شامل بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز کا صادق سنجرانی پر اعتماد برقرار ہے۔

چیئرمین سینیٹ کے لیے ممکنہ امیدوار کون ہو سکتا ہے؟

چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد لانے کے لیے مشترکہ اپوزیشن کی کمیٹی قائم کی گئی ہے جو کہ چیئرمین سینیٹ کو تبدیل کرنے کے لیے طریقہ کار اور نئے امیدوار کے انتخاب کا فیصلہ کرے گی۔ چیئرمین سینیٹ کے لیے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر میر حاصل بزنجو سمیت مختلف نام زیر غور ہیں لیکن اس حوالے سے تاحال اپوزیشن کی جانب سے کوئی نام سامنے نہیں آیا ہے۔

شیئر: