Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تالپور سیاست میں غیر مؤثر کیسے ہوئے؟

انگریزوں کے ہاتھوں سندھ کی فتح سے پہلے تین تالپور برادران اپنے اپنے صوبوں کے حکمران تھے۔ فوٹو: فیس بک
تالپوروں نے ہالانی کے میدان میں کلہوڑوں سے جنگ جیتی اور سندھ پر 60 سال حکمرانی کی لیکن میانی کے میدان میں انگریزوں سے ہار گئے۔ تالپور آزاد  سندھ کے آخری حکمران تھے۔ پھر نہ تالپوروں کی حکومت رہی نہ سندھ آزاد رہا۔
انگریزوں کے ہاتھوں سندھ کی فتح سے پہلے تین تالپور برادران اپنے اپنے صوبوں کے حکمران تھے۔ میر سہراب خان تالپور کے پاس خیرپور، میر فتح علی خان کے پاس حیدرآباد، اور میرٹھارا خان کے پاس میرپورخاص کی حکمرانی تھی۔ بعدازاں انہی تین گھرانوں کے افراد سیاست میں آئے۔ ٹنڈو محمد خان اور ٹنڈو باگو حیدرآباد کے تالپوروں کے خاندان میں سے تھے۔ 

سیاست جاگیردارانہ کھیل

بمبئی سے علیحدگی کے وقت سندھ میں سیاست جاگیردارانہ کھیل تھا۔ پچاس کے عشرے کے وسط تک سیاسی جوڑ توڑ کا عروج رہا۔ ستر سال کے دوران  14 حکومتیں تشکیل دی گئیں۔ غلام حسین ہدایت اللہ پانچ مرتبہ، خان بہادر ایوب کھڑو تین مرتبہ، اللہ بخش سومرو دو بار جبکہ میر بندہ علی تالپور، عبدالستار پیرزادہ، قاضی فضل اللہ، پیر الہٰی بخش اور یوسف ہارون ایک ایک بار وزیر اعلیٰ رہے۔ ایوب کھڑو، میر بندہ علی تالپو، سید میراں محمد شاہ چار حکومتوں میں وزیر رہے۔
جاگیردار طبقے کے 20 افراد اس دور میں سندھ کے سیاہ و سفید کے مالک رہے۔ قیام پاکستان سے لے کر 1954 تک چھ بڑے جاگیردار مرکز میں سندھ کی نمائندگی کرتے رہے۔ ایوب خان کی زرعی اصلاحات اور سیاسی نظام عملی کا عکس ایک عشرے بعد ظاہر ہوا۔

 انگریزوں کے ہاتھوں سندھ کی فتح سے پہلے تین تالپور برادران اپنے اپنے صوبوں کے حکمران تھے۔ فوٹو: تالپور.کوم

عوامی سیاست والے حیدرآباد کے میر

  حیدر آباد کی سیاست میں تالپور خاندان میں نمایاں کردار میر علی احمد تالپور اور میر رسول بخش تالپور کا رہا۔ دونوں بھائیوں نے سیاسی  کیریئر کا آغاز روشن خیال سیاست سے کیا اور ان کا طریقہ کار جاگیردارانہ کے بجائے عوامی تھا۔
علی احمد تالپور نے 1937 میں کانگریس میں شمولیت اختیار کی اور بعد میں خاکسار تحریک، خان عبدالغفار خان کی پارٹی، میاں افتخارالدین کی آزاد پاکستان پارٹی سے ہوتے ہوئے 1951 میں مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ 1953 میں سندھ اسمبلی کے اور 1955 میں مغربی پاکستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ وہ مغربی پاکستان کے وزیر بھی رہے۔
میر علی احمد 1970 میں ذوالفقار علی بھٹو کی خالی کردہ نشست پر ضمنی انتخاب جیتے، لیکن 1973 کے آئین پر اختلافی نوٹ لکھا۔ 1975 میں پیپلزپارٹی کو خیرباد  کہا۔
جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی، تو میرعلی احمد ضیا کابینہ میں وزیر دفاع  تھے۔ علی احمد تالپور کے اس اقدام پر سندھ آج تک ناراض ہے۔ 1985 کے انتخابات میں میر علی کامیاب نہ ہوسکے۔

سازش مقدمات اور حیدرآباد کے میر

راولپنڈی سازش کیس کا جب مقدمہ حیدرآباد میں چلا تو میر رسول بخش تالپور کا بنگلہ اسیران کے عزیزوں اور احباب کا مرکز بنا رہا۔ یہی روایت انہوں نے نیشنل عوامی پارٹی کے خان عبدالولی خان، میر غوث بخش بزنجو و دیگر کے خلاف چلنے والے مقدمے میں بھی برقرار رکھی۔
رسول بخش تالپور نے حیدرآباد میں مزدور تحریک کو منظم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ’گاڑی کھاتہ حیدرآباد‘ کا ٹریڈیونین آفس ان کے نام پر کرایہ پر لیا گیا تھا۔ میر برادران نے صدارتی الیکشن میں ایوب خان کے خلاف فاطمہ جناح کا ساتھ دیا۔ جب بھٹو نے سندھ میں پیپلزپارٹی کو منظم کرنا چاہا تو میررسول بخش نے آگے بڑھ کر ساتھ دیا اور انہیں پیپلز پارٹی سندھ  کا صدر مقرر کیا گیا۔ بعد میں بھٹو سے اختلافات پیدا ہو گئے اور انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔
 میر رسول بخش تالپور ادب دوست تھے۔ فیض احمد فیض، احمد فراز اور دیگر بڑے بڑے شعرا ان کے مہمان بنتے رہتے تھے۔
  میر علی احمد کے بیٹے حیدر علی تالپور غیر جماعتی انتخابات میں سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ بعد میں ہونے والے انتخابات میں ان کو کسی میں بھی کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ میر رسول بخش تالپور کے بیٹے میر رفیق تالپور نے تین مرتبہ سیاست میں طبع آزمائی کی لیکن کامیاب نہ ہوئے۔

 


چار بھائی تالپور کے حکمران۔ فوٹو: تالپور.اوآرجی

بڑوں کی مدد سے سیاست: میرپور خاص کے میر

میر پور خاص کے تالپور خاندان میں سے میر الہداد خان تالپور بارہ برس تک مجلس قانون ساز کے رکن اور آٹھ سال تک ضلع لوکل بورڈ کے صدر رہے۔ ان کے بیٹے میر امام بخش 1953 میں صوبائی وزیر رہے۔ بھٹو دور میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر دو مرتبہ رکن سندھ اسمبلی بنے۔ ان کے بیٹے میر لطف اللہ غیر جماعتی انتخابات میں رکن سندھ اسمبلی بنے۔
میران میرپور سے تعلق رکھنے والے دو بھائی  احمد خان تالپور 1946 سے 1956 تک سندھ اسمبلی کے رکن  رہے اور محمد بخش تالپور  ویسٹ پاکستان اسمبلی کے رکن رہے۔
اس خاندان کے ایک اور فرد میر علی بخش تالپور 1970 میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر انتخاب جیتے۔ ان کے بیٹے منور تالپور جنرل ضیا کی مجلس شوریٰ کے ممبر بنے۔ بعد میں غیر جماعتی انتخابات میں رکن صوبائی اسمبلی بنے۔ 1988 میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر انتخاب جیتنے کے بعد صوبائی کابینہ کے رکن بھی رہے۔ 1990 سے لے کر تمام انتخابات میں وہ منتخب ہوتے رہے۔ فریال تالپور ان کی اہلیہ ہیں۔
 سندھ یونیورسٹی کی طلبا یونین  سے سیاسی کیریئر کا آغاز کرنے والے یوسف تالپور قوم پرست سمجھے جاتے ہیں وہ 1977 میں عمر کوٹ سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ ممتاز بھٹو کے سندھی بلوچ پشتون فرنٹ کی حمایت سے  1988 اور 1990 میں الیکشن ہارنے کے بعد انہیں دوبارہ پیپلزپارٹی میں آنا پڑا۔ اس کے بعد وہ وفاقی وزیر اور تین مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں۔  یوسف تالپورکے بیٹے تیمور تالپور آج کل سندھ اسمبلی کے رکن اور صوبائی وزیر ہیں۔
1988 میں صرف میر پور خاص کی تالپور فیملی سے میر منور تالپور اور  میر حیات تالپور صوبائی اسمبلی کے رکن بن سکے۔ 1990 میں بھی یہ دونوں صوبائی اسمبلی تک پہنچ سکے جبکہ 1993 میں ان کے علاوہ میراللہ بچایو تالپور بھی ایم پی اے بن سکے۔ ان تینوں میروں نے 1997 میں بھی اپنی پوزیشن برقرار رکھی۔
 مشرف دور کے انتخابات میں محبوب تالپور، ذوالفقار علی تالپور اور تیمور خان تالپور جیتے۔ بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد ہونے والے انتخابات میں حاجی حیات تالپور، محبوب تالپور اور میر تیمور تالپور رکن سندھ اسمبلی بنے۔
2013 کے انتخابات میں میر اللہ بخش تالپور بدین سے، میر حیات تالپور اور نواب تیمور تالپور میرپور خاص سے رکن اسمبلی بنے۔ ان خاندانوں نے 2018 کے انتخابات میں بھی اپنی پوزیشن برقرار رکھی۔ میراللہ بخش تالپور، ذوالفقار تالپور، میر طارق علی تالپور (حیات تالپور کے پوتے) اور محمد تیمور تالپور سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔
آج کل قومی اسمبلی میں میر منور تالپور اور  یوسف تالپور موجود ہیں۔ دونوں کا تعلق میرپور خاص کے تالپور خاندان سے ہے۔

میر رسول بخش تالپور۔ شاعر فیض احمد فیض اور احمد فراز کے ہمراہ۔ فوٹو: فیس بک

بادشاہ گر میر ٹنڈو محمد خان والے

ٹنڈو محمد خان کے تالپوروں نے میرغلام علی تالپور کی وجہ سے قیام پاکستان سے پہلے اور بعد کے ابتدائی برسوں میں سیاست میں بڑا نام پیدا کیا۔  وہ ایک عشرے تک سندھ میں بادشاہ گر رہے۔ انہوں نے 1936 سے 1940 تک کوئی الیکشن نہیں ہارا اور انیس سو چالیس تک ایوب خان کابینہ میں رہے۔ دو مرتبہ وزیراعلیٰ سندھ بنتے بنتے رہ گئے۔ پہلی مرتبہ مسلم لیگ پارلیمانی پارٹی میں یوسف ہارون سے 200 ووٹوں سے ہارے، دوسری مرتبہ ایبڈو کے تحت نااہل قرار دیے جانے کے پیش نظر انہوں نے عبدالستار پیرزادہ کو وزیر اعلیٰ نامزد کیا۔
سکھر میں مسجد منزل گاہ کے واقعے کے بعد اللہ بخش سومرو اپنی اکثریت قائم نہ رکھ سکے۔ تب گورنر سندھ نے میر بندہ علی کو  کابینہ بنانے کی دعوت دی۔ تالپور لابی اتنی مضبوط تھی کہ خان بہاردر ایوب کھڑو اور جی ایم سید جیسی شخصیات ان کی کابینہ میں وزیر تھیں۔ میرغلام علی تالپور کے بھائی میرعلی نواز تالپورعبدالستار پیرزادہ کی کابینہ میں وزیر رہے۔

سہ فریقی رسہ کشی

چالیس کے عشرے میں میر اور سید گروپوں کے درمیان اقتدار کی جنگ تیز ہوگئی۔ 1946 کے انتخابات کے موقعہ پر تالپور بطور ایک اہم سیاسی گروپ کے موجود تھے، لیگ کی ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے جی ایم سید، میر گروپ اور کھڑو کے درمیان سہ فریقی رسہ کشی ابھر کر سامنے آئی۔ شیخ غلام حسین، میر گروپ اور کھڑو آپس میں مل گئے اور’سید‘ لابی کے خلاف ہو گئے۔
بعد میں ’پروڈا‘ کے تحت ایوب کھڑو کے خلاف جن تین وزرا نے پٹیشن دائر کی ان میں آغا غلام نبی پٹھان اور قاضی فضل اللہ کے ساتھ میرغلام علی بھی شامل تھے۔ جوابی حملے کے طور پر ایوب کھڑو نے ان تینوں وزرا کے خلاف بد انتظامی اور عہدے کے غلط استعمال کے الزامات میں ایک درخواست دائر کی۔ ایوب کھڑو اور قاضی فضل اللہ نے میرغلام علی تالپور کو دو سال کے لیے پارٹی سےخارج  کرنا چاہا لیکن خواجہ ناظم الدین نے مخالفت کی۔

یوسف تالپور جو قومی اسمبلی کے ممبر ہیں، کا تعلق میرپور خاص کے تالپور خاندان سے ہے۔ فوٹو: فیس بک

ون یونٹ اور تالپور وں کا کردار

ملک کی مقتدرہ قوتوں نے جب ملک میں ’ون یونٹ‘ نافذ کرنا چاہا توغلام علی تالپور سندھ اسمبلی کے سپیکر تھے۔ ان پر دبائو ڈالا گیا کہ وہ ون یونٹ کے قیام کا بل منظور کروائیں۔ انکار پر بندوق کی نوک پر انہیں ان کی رہائش گاہ حیدرآباد سے اغوا کیا گیا اور تھر کے صحرا مٹھی لے جایا گیا۔ اس وقت سڑک نہیں ھتی، اس لیے انہیں اونٹ پر بٹھا کر لے جایا گیا تھا۔ بعد میں میرغلام علی تالپور نے ایوب کھڑو کی حکومت گرانے کی کوشش کی تو میر گروپ کے کچھ اراکین کو گرفتار کر لیا گیا۔
تالپوروں کی بادشاہ گری میرغلام علی تالپور کی زندگی تک ہی رہی۔
میر غلام علی تالپور کے  دو بیٹوں اعجاز تالپور اور ممتاز تالپور نے بھی سیاست میں حصہ لیا لیکن جب تک انہیں پیپلز پارٹی  کی حمایت حاصل رہی انہوں نے انتخابات جیتے ورنہ ناکامی ان کا مقدر رہی۔ میر اعجاز کے بیٹے میرعنایت صرف 1985 کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو سکے۔ 
میر غلام علی تالپور کے کزن میر بندہ علی تالپور 1937 میں  سندھ اسمبلی  کے رکن بنے۔ سرغلام حسین ہدایت اللہ کی پہلی  کابینہ میں وزیر تھے۔ اللہ بخش سومرو کی  کابینہ ختم ہونے کے بعد کچھ عرصے تک وزیراعلیٰ رہے۔ 1946 اور 1953 میں رکن سندھ اسمبلی بنے اس کے بعد ان کا نام سیاسی افق پر نظر نہیں آیا۔
میربندہ علی کے بیٹے میرغلام علی تالپور جنرل ضیا کی شوریٰ کے ممبر نامزد ہوئے اس کے بعد سیاسی پلیٹ فارم پر نظر نہیں آئے۔ میر غلام علی کے چھوٹے بھائی میر محمد حسن عرف میر بابو پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن جیتے۔

میر منور تالپور اپنی اہلیہ فریال تالپور اور بلاول بھٹو کے ہمراہ۔ فوٹو: فیس بک

 خیرپور کے بادشاہ لوگ میر

قیام پاکستان کے ابتدائی نو سال تک خیر پور الگ ریاست رہی، لہٰذا یہاں کے تالپوروں کا ملکی سیاست سے کوئی تعلق نہ رہا۔ ون یونٹ ٹوٹنے کے بعد خیرپور سندھ اور ملکی سیاست کا حصہ بنے۔
خیرپور کے  تالپور خاندان کی سیاست میں کم دلچسپی رہی۔ وہ کہتے ہیں کہ عزت اور دولت دونوں ہمارے پاس ہیں۔ ہم نہ کسی کو تنگ کرنا چاہتے ہین نہ کسی کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں۔ خیرپور کے تالپور اپنے بادشاہی رویے اور بیگمات کے محلات کی تعمیر کے لیے مشہور ہیں۔ فیض محل، دلشاد محل اور دیگر محلات یادگار ہیں۔
اس خاندان سے 1970 میں پہلی مرتبہ میر عطا حسین تالپور رکن اسمبلی منتخب ہوئے اور صوبائی وزیر بھی بنے۔ ضیاالحق کے غیرجماعتی انتخابات میں میرغلام علی عرف گلن تالپور رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے۔
اس کے برعکس زیریں سندھ لاڑ کے تالپوروں میں ایسی شخصیات بھی پیدا ہوئیں جنہوں نے رفاحی کام کیے۔ میرغلام محمد تالپور نے ٹنڈو باگو میں ہائی سکول بمع ہوسٹل قائم کیا، جہاں سے ہزاروں غریب گھروں کے بچوں نے تعلیم حاصل کی۔ ٹنڈو جام کے کامریڈ میرمحمد تالپور کمیونسٹوں کے ساتھ رہے۔ اور سندھ  کی کسان تحریک میں بھرپور کردار ادا کیا۔ ٹنڈو باگو کے میر خدا بخش تالپور نے اپنی بیگم کے لیےصاحباں محل تعمیر کروایا۔

میر برادران نے صدارتی الیکشن میں ایوب خان کے خلاف فاطمہ جناح کا ساتھ دیا۔ فوٹو: فیس بک

تالپور سیاست میں غیر موثر کیسے ہوئے؟ منظر نامہ کیسے بدلا؟
قیام پاکستان کے بعد ایک عشرے تک ملک بھر اور خصوصاً سندھ میں محلاتی سازشوں کا دور رہا۔ اس وقت سندھ کی سیاست میں کسی کو بنانا یا ناکام کرنا تالپوروں کے ہاتھ میں تھا۔ ساٹھ کے عشرے کے آخر میں ون یونٹ کے خلاف تحریک اور بھٹو کی پیپلزپارٹی کے ذریعے عوامی سیاست کی لہر آئی تو تالپور خاندان لا پتہ ہو گیا۔ بعد میں بھٹو  کو سزائے موت اور ’ایم آرڈی‘  کی تحریک نے پوری سیاست کا منظر نامہ ہی بدل دیا، یہاں تک کہ 1988 کے بعد تین انتخابات میں تالپور اتنے غیر مؤثر ہو گئے کہ کوئی بھی تالپور قومی اسمبلی تک نہ پہنچ سکا۔
ماضی کے حکمران خاندان کے صرف وہی فرد میدان میں رہے جو سیاسی عمل کا سرگرم حصہ رہے۔ بعض افراد اسٹیبلشمنٹ کے آسرے پر رہے کہ کب غیر مقبول سیٹ اپ بنتا ہے اور انہیں بھی شریک اقتدار کیا جاتا ہے۔
ون یونٹ کے خلاف سندھ کے مڈل کلاس کی تحریک، ذوالفقارعلی بھٹو کے معاشی و انتظامی اصلاحات اور سیاسی حکمت عملی نے نئے پاور بروکرز پیدا کیے۔ جاگیرداروں کا سیاست میں عمل دخل کم ہو گیا، تب سیاست کے لیے صرف بڑی زمینداری اور پیسہ کافی نہ رہا۔
 بینظیر بھٹو کی مقبول لہر کے دوران اکثر تالپور سیاست دان پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے، لیکن نواب یوسف تالپور اور میرعلی بخش تالپور یا کسی حد تک بدین تالپورخاندان سیاسی وجود برقرار رکھ پائے۔ تاہم 1930 کے عشرے سے لے کر پچاس کے عشرے کی طرح ان کی اپنی کوئی الگ سے شناخت یا گروپ نہیں رہا۔ یہ عجیب بات ہے کہ  سیاست میں تالپوروں کی جگہ سیدوں نے لی۔
 

شیئر: