Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستانی طلبہ سعودی عرب سمیت کن ممالک کے سکالرشپس حاصل کر سکتے ہیں؟

سعودی عرب پاکستانی طلبہ کو سب سے زیادہ اور متنوع سکالرشپس کے مواقع فراہم کر رہا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
بیرونِ ملک اعلٰی تعلیم حاصل کرنے کے خواہش مند پاکستانی طلبہ کے لیے اس وقت دنیا کے درجنوں ممالک مختلف نوعیت کے سکالرشپس فراہم کر رہے ہیں۔
تاہم یہ مواقع بکھری ہوئی معلومات، محدود نشستوں اور سخت مسابقت کے باعث اکثر طلبہ تک بروقت اور واضح انداز میں نہیں پہنچ پاتے۔ 
یہی وجہ ہے کہ بہت سے اہل اور مستحق طلبہ اِن سہولتوں کے باوجود بیرونِ ملک تعلیم کے خواب کو عملی شکل نہیں دے پاتے۔
اس پس منظر میں یہ سوال اہم ہو جاتا ہے کہ پاکستانی طلبہ کن کن ممالک میں، کن تعلیمی سطحوں پر اور کس نوعیت کی مالی معاونت کے تحت تعلیم حاصل کر سکتے ہیں؟
اس کے علاوہ ان سکالرشپس میں حکومتِ پاکستان اور ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کا کردار کہاں تک فعال یا محدود ہے؟
اردو نیوز کو دستیاب سرکاری دستاویزات کے مطابق پاکستانی طلبہ کے لیے امریکہ، چین، یورپ، خلیجی ممالک اور دیگر خطوں میں مختلف سطحوں پر سکالرشپس کے مواقع موجود ہیں۔
اِن میں کچھ پروگرام براہِ راست حکومتِ پاکستان کے تعاون سے چل رہے ہیں، جبکہ کئی سکیمیں ایسی ہیں جن پر قومی خزانے پر کوئی بوجھ نہیں پڑتا اور صرف امیدواروں کی نامزدگی کی ذمہ داری ایچ ای سی ادا کرتی ہے۔
امریکہ کو پاکستانی طلبہ کے لیے اعلٰی تحقیق اور اعلٰی تعلیم کا سب سے بڑا مرکز تصور کیا جاتا ہے، خصوصاً پی ایچ ڈی اور پوسٹ ڈاکٹریل سطح پر۔ 
پاکستان-امریکہ نالج کوریڈور کے تحت پاکستانی سکالرز کو امریکی جامعات میں پی ایچ ڈی اور پوسٹ ڈاکٹریٹ تعلیم کے مواقع فراہم کیے جا رہے ہیں۔
اس کا بنیادی مقصد پاکستان کی جامعات کے لیے اعلٰی معیار کے فیکلٹی ممبران تیار کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ فُل برائٹ سکالرشپ سپورٹ پروگرام کے ذریعے بھی ہر سال بڑی تعداد میں پاکستانی طلبہ امریکہ میں اعلٰی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ 
یہ سکالرشپس مکمل یا جُزوی مالی معاونت پر مشتمل ہوتے ہیں، جن میں ٹیوشن فیس، رہائش اور ماہانہ وظیفہ شامل ہوتا ہے، اور یہ معاونت یا تو امریکی حکومت فراہم کرتی ہے یا پھر ایچ ای سی اس میں شریک ہوتی ہے۔

پاکستانی طلبہ کے لیے چائنیز گورنمنٹ سکالرشپ بیچلرز، ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی سطح پر دستیاب ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

گذشتہ چند برسوں کے دوران خلیجی ممالک بھی پاکستانی طلبہ کے لیے اعلٰی تعلیم کے ایک اہم مرکز کے طور پر اُبھر کر سامنے آئے ہیں، جہاں بیچلرز سے پی ایچ ڈی تک مختلف سطحوں پر وظائف دستیاب ہیں۔ 
ان ممالک کی ایک بڑی کشش یہ ہے کہ یہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ رہائش، ماہانہ وظیفہ اور طبی سہولیات بھی اکثر سکالرشپ کے پیکج کا حصہ ہوتی ہیں۔
اسی وجہ سے غریب اور متوسط طبقے کے طلبہ کے لیے بیرونِ ملک تعلیم حاصل  کرنا نسبتاً قابلِ عمل بن جاتا ہے۔
خلیجی خطے میں سعودی عرب پاکستانی طلبہ کو سب سے زیادہ اور متنوع سکالرشپس کے مواقع فراہم کر رہا ہے۔ 
سعودی حکومت کے ’سٹڈی اِن سعودی عرب‘ پروگرام کے تحت پاکستان سمیت مختلف ممالک کے طلبہ کو سرکاری جامعات میں بیچلرز، ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی سطح پر مکمل مالیاتی سکالرشپس دی جاتی ہیں۔ 
ان سکالرشپس میں ٹیوشن فیس کی مکمل معافی، ماہانہ وظیفہ، مفت رہائش، طبی سہولیات اور سال میں ایک مرتبہ وطن واپسی کا فضائی ٹکٹ شامل ہوتا ہے۔ 
اس کے علاوہ کنگ سعود یونیورسٹی، کنگ فہد یونیورسٹی اور مدینہ کی اسلامک یونیورسٹی جیسے ادارے بھی اپنی سطح پر مکمل فنڈڈ سکالرشپس فراہم کرتے ہیں، جن سے ہر سال بڑی تعداد میں پاکستانی طلبہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔

ہنگری نے پاکستان طلبہ کو سالانہ 400 مکمل مالی وظائف فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے (فائل فوٹو: آئی سٹاک)

متحدہ عرب امارات کی اعلٰی جامعات میں میں بھی پاکستانی طلبہ کے لیے اعلٰی معیار کے سکالرشپ کے مواقع موجود ہیں، اگرچہ یہاں مکمل فنڈڈ سکالرشپس کی تعداد نسبتاً کم سمجھی جاتی ہے۔ 
خلیفہ یونیورسٹی، یو اے ای یونیورسٹی اور امریکن یونیورسٹی آف شارجہ جیسے ادارے بیچلرز، ماسٹرز اور پی ایچ ڈی پروگرامز کے لیے میرٹ کی بنیاد پر سکالرشپس فراہم کرتے ہیں۔
اِن میں مکمل یا جُزوی فیس معافی، بعض صورتوں میں ماہانہ وظیفہ اور تحقیقی معاونت شامل ہوتی ہے۔ یہ مواقع خاص طور پر انجینیئرنگ، سائنس، ٹیکنالوجی اور بزنس کے شعبوں میں زیادہ نمایاں ہیں۔
چین پاکستانی طلبہ کے لیے سرکاری سطح پر مکمل مالی معاونت فراہم کرنے والا ایک مستحکم اور مسلسل ذریعہ بن چکا ہے۔ 
چائنیز گورنمنٹ سکالرشپ بیچلرز، ماسٹرز اور پی ایچ ڈی سطح پر دستیاب ہے اور اس میں ٹیوشن فیس، رہائش، طبی سہولیات اور ماہانہ وظیفہ شامل ہوتا ہے۔ 
اس پروگرام کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس کا حکومتِ پاکستان پر کوئی مالی بوجھ نہیں پڑتا اور ایچ ای سی کا کردار صرف اہل امیدواروں کی نامزدگی تک محدود ہوتا ہے، جس کے باعث محدود قومی وسائل کے باوجود بڑی تعداد میں پاکستانی طلبہ اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

پاکستانی سکالرز کو امریکی جامعات میں پی ایچ ڈی اور پوسٹ ڈاکٹریٹ تعلیم کے مواقع فراہم کیے جا رہے ہیں (فائل فوٹو: گیٹی امیجز)

یورپ میں ہنگری پاکستانی طلبہ کے لیے سب سے زیادہ نشستیں فراہم کرنے والا ملک سمجھا جاتا ہے۔ ہنگری کے سکالرشپ پروگرام کے تحت سالانہ 400 مکمل مالی وظائف فراہم کیے جاتے ہیں۔
اِن میں بیچلرز، ماسٹرز، ون-ٹیئر ماسٹرز اور پی ایچ ڈی شامل ہیں۔ یہ سکالرشپس ٹیوشن فیس، رہائش اور ماہانہ وظیفے پر مشتمل ہوتے ہیں اور نسبتاً آسان داخلہ شرائط کے باعث متوسط طبقے کے طلبہ کے لیے بھی قابلِ رسائی سمجھے جاتے ہیں۔ 
حکام کے مطابق یورپی خطے میں یہ واحد پروگرام ہے جہاں پاکستانی طلبہ کے لیے نشستیں واضح طور پر مختص کی گئی ہیں۔
برطانیہ اور دولتِ مشترکہ کے دیگر ممالک میں دستیاب سکالرشپس اگرچہ تعداد میں محدود ہیں، تاہم ان کا معیار عالمی سطح پر انتہائی بُلند سمجھا جاتا ہے۔ 
کامن ویلتھ سکالرشپ پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک کے طلبہ کے لیے ماسٹرز اور پی ایچ ڈی سطح پر فراہم کیا جاتا ہے اور یہ مکمل مالی معاونت پر مشتمل ہوتا ہے۔ 
ان سکالرشپس میں حکومتِ پاکستان کا کوئی مالی کردار نہیں ہوتا، جس کے باعث ایچ ای سی انہیں بجٹ دباؤ کے بغیر جاری رکھنے کے قابل ہوتی ہے، تاہم سخت مسابقت کے باعث صرف چند منتخب طلبہ ہی اس موقع سے فائدہ اٹھا پاتے ہیں۔

جامعات کے فنڈز میں کمی کے باعث مستقبل میں سکالرشپ پروگراموں کا دائرہ محدود ہونے کا خدشہ ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی) 

اسی طرح یورپی یونین کا ایراسمس منڈس پروگرام پاکستانی طلبہ کو ایک سے زیادہ یورپی ممالک میں تعلیم حاصل کرنے کا منفرد موقع فراہم کرتا ہے۔ 
یہ سکالرشپ زیادہ تر ماسٹرز اور پی ایچ ڈی سطح پر دیا جاتا ہے اور مکمل مالی معاونت فراہم کرتا ہے، تاہم درخواست کا پیچیدہ طریقہ کار اور سخت مسابقت اس پروگرام تک رسائی کو محدود بنا دیتی ہے۔
اگرچہ مختلف ممالک کی جانب سے فراہم کیے جانے والے سکالرشپس کی فہرست خاصی طویل دکھائی دیتی ہے، لیکن سرکاری دستاویزات کے مطابق اعلٰی تعلیم کے لیے دستیاب ملکی وسائل شدید دباؤ میں ہیں۔ 
جامعات کی گرانٹس میں جمود اور ترقیاتی فنڈز میں نمایاں کمی کے باعث خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مستقبل میں سرکاری مالی اعانت سے چلنے والے سکالرشپ پروگراموں کا دائرہ مزید محدود ہو سکتا ہے۔ 
یہی وجہ ہے کہ ایچ ای سی غیرملکی حکومتوں اور جامعات کے ساتھ تعاون بڑھانے اور ایسے پروگراموں پر زیادہ انحصار کرنے کی حکمتِ عملی اختیار کر رہا ہے جن پر قومی خزانے کا براہِ راست بوجھ نہ پڑے۔
ماہرین کے مطابق موجودہ حالات میں پاکستانی طلبہ کے لیے یہ ناگزیر ہو چکا ہے کہ وہ صرف سرکاری وسائل پر انحصار کرنے کے بجائے سکالرشپس کی نوعیت، تعلیمی سطح اور مالی شرائط کو سمجھ کر بروقت اور منظم تیاری کریں۔
اگرچہ پاکستانی طلبہ کے لیے بین الاقوامی سطح پر تعلیم حاصل کرنے کے مواقع موجود ہیں، مگر ان تک رسائی پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ مسابقتی اور پیچیدہ ہو چکی ہے۔
 

شیئر: