Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی خواتین نے مہندی لگانے کا فن کہاں سے سیکھا؟

ایک دور تھا کہ سعودی عرب کی خواتین ہاتھوں پر مہندی کے نقوش سے ناواقف تھیں، لیکن 80 کی دہائی میں سعودی عرب میں رہنے والی پاکستانی اورانڈین فیملیز نے سعودی خواتین کو مختلف انداز میں مہندی سے اپنے ہاتھوں کو مزین کرنے کے طریقوں سے آشنا کرایا۔
سعودی معاشرے میں مہندی لگانے کا رواج تو تھا مگر اس طرح نہیں تھا جیسا پاکستان میں عید کی تہواروں پر خواتین خوبصورت نقوش سے اپنے ہاتھوں کو سجاتی ہیں۔ عرب خواتین مہندی کا لیپ ہاتھوں اور پیروں پر لگا کر انہیں رنگ لیتی تھیں یا پھرسر پر لگا کرانہیں سرخ کردیتی تھیں۔اگریہ کہا جائے تو بے جانہ ہوگا کہ مہندی کے انداز اور نقوش سے عرب خواتین کو آشنا کرانے میں سعودی عرب میں رہنے والی پاکستانی خواتین کا اہم کردار ہے۔ اس بات کا اعتراف سعودی خواتین بھی کرتی ہیں کہ انہوں نے پاکستانی خواتین سے یہ ہنر سیکھا اور اب سعودی خواتین اس ہنر کو دیگر معاشروں میں پھیلانے کا سبب بن رہی ہیں جس کی بنیاد پاکستانی خواتین نے ڈالی۔

فاطمہ ایک کورین خاتون کے ہاتھوں پر مہندی لگا رہی ہے۔ 

 جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول میں شاہ عبدالعزیز عالمی ثقافتی مرکز کے تحت 10 روزہ ثقافتی میلے میں سعودی خاتون کا مہندی لگانے کا اسٹال غیر معمولی طور پر کورین خواتین میں مقبول رہا جہاں سعودی عرب کی کمشنری القطیف کی رہنے والی سعودی خاتون فاطمہ آل ابریہ نے اس خوبصورت انداز میں کورین خواتین کو مہندی کے رنگوں سے سجایا کہ وہ نہ صرف اس فن کی داد دینے پر مجبور ہو گئیں بلکہ فاطمہ کا اسٹال پورے ثقافتی میلے میں مشہور ہو گیا۔

سعودی ثقافتی میلے میں سب سے زیادہ فاطمہ کا اسٹال ہی کورین خواتین کی توجہ کا مرکز رہا۔ فائل فوٹو اے ایف پی

فاطمہ نے العربیہ نیوز نیٹ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب سٹال لگایا تھا تو یہ خیال تھا کہ معلوم نہیں اسٹال کامیاب بھی ہو گا یا نہیں مگر پہلے دن جب ایک کورین خاتون کو مہندی لگائی تو اسے دیکھ کر متعدد خواتین اپنے ہاتھوں کو سجانے کےلئے میرے اسٹال پر موجود تھیں۔ فاطمہ نے مزید بتایا کہ انہیں مہندی لگانے کا شوق بچپن سے تھا۔ وہ انٹرنیٹ سے مہندی کے مختلف ڈیزائن نکال کراپنی بہنوں اوردوستوں کے ہاتھوں پرمہندی لگاتی تھیں۔
سیول میں سعودی ثقافتی میلے میں سب سے زیادہ فاطمہ کا اسٹال ہی کورین اور دیگر ممالک کی خواتین کی توجہ کا مرکز رہا۔ فاطمہ کا کہنا تھا کہ اسے خوشی ہے کہ اس کے فن کی وجہ سے وطن عزیز کا نام بلند ہوا ۔

شیئر: