Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’10لاکھ غیر ملکیوں نے سعودی نجی اداروں کو خیر باد کہہ دیا‘

محمد الشہری نے ٹویٹ کیا کہ بے روزگاری کی شرح غلط بتائی گئی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
فروغ افرادی قوت فنڈ (ہدف) نے 2018 کے حوالے سے اعدادوشمار جاری کرکے بتایا کہ 10لاکھ غیرملکیوں نے نجی اداروں کو خیر باد کہا۔
الوطن اخبار کے مطابق ہدف اور سوشل انشورنس جنرل کارپوریشن نے اطلاع دی ہے کہ سعودی نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح گھٹ کر 6.6 فیصد تک ہوگئی۔ یہ رپورٹ تہلکہ خیز ثابت ہوئی ہے۔
 ہدف اور سوشل انشورنس جنرل کارپوریشن نے اس امر کی جانب بھی توجہ مبذول کرائی ہے کہ 2018 کے دوران نجی اداروں میں مجموعی افرادی قوت 85.9 لاکھ تھی ان میں 17 لاکھ سعودی خواتین و حضرات تھے۔ مجموعی طور پر بے روزگار سعودیوں کی تعداد 7.8 لاکھ ریکارڈ کی گئی۔ ان میں 3.5 لاکھ مرد اور 4.3 لاکھ خواتین ہیں۔

2018 میں مجموعی افرادی قوت 85.9 لاکھ تھی ان میں17 لاکھ سعودی خواتین و حضرات تھے۔ فوٹو: اے ایف پی

یوں تو فروغ افرادی قوت فنڈ اور سوشل انشورنس جنرل کارپوریشن کی مذکورہ رپورٹ میں سعودی شہریوں کی شرح بے روزگاری میں کمی کا دعوی کیا ہے، لیکن اس پر سعودیوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر مختلف تبصرے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔
سعود الشمری نامی ایک سعودی نے اسے گمراہ کن رپورٹ قرار دیا ہے۔
محمد الشہری نے ٹویٹ کیا کہ بے روزگاری کی شرح غلط بتائی گئی ہے۔ یہ حقیقت میں 6.6 فیصد سے زیادہ ہے۔ ’طوفان دیکھ کر شترمرغ کی طرح گردن مٹی میں چھپانے سے بہتر ہے کہ اصل مسئلے کا سامنا کیا جائے اور اسکا کوئی حل نکالا جائے۔‘
ابو عبداللہ السبیعی نے اپنے غصے کا اظہار یہ کہہ کر کیا کہ فرضی سعودائزیشن کو حقیقی سعودائزیشن قرار دے کر رپورٹ تیار کی گئی ہے۔
مشعل نے اپنے ساتھیوں کا مسئلہ اٹھا کر رپورٹ کی دھجیاں یہ کہہ کر بکھیریں کہ ان سمیت 142سعودیوں کو یکبارگی ملازمت سے نکالا گیا۔ بے روزگاری کے اعدادوشمار درست نہیں ہیں۔ ’جس نے یہ رپورٹ تیار کی ہے اس پر یہ اعدادوشمار بلا بن کر نازل ہوں گے۔‘

غیر ملکی کو سعودی پر اس لئے ترجیح دی جارہی ہے کیونکہ وہ معمولی معاوضے پر راضی ہوجاتے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

ایک اور صارف نے تحریر کیا کہ اگر یہ بات درست ہے کہ 70 ہزار سعودی نجی اداروں سے نکلے ہیں تو سوال یہ ہے کہ یہ کہاں گئے ہیں؟ کیا انہیں سرکاری اداروں میں ملازمتیں دی گئیں۔ رپورٹ بلا شبہ گمراہ کن ہے۔
ایک اور صارف مشعل کا کہنا تھا کہ بے روزگاری بدعنوانی کی وجہ سے ہے۔ سچائی کو فروغ دیا جائے اوراسی طرح بدعنوانی کا خاتمہ ہوسکے گا۔
 الامیری نے رپورٹ کا مذاق اڑاتے ہوئے تحریر کیا کہ ایسا ملک جہاں 80 لاکھ غیرملکی برسر روزگار ہوں وہاں بے روزگاری کی شرح 6 فیصد بتانا مضحکہ خیز امر ہے۔
ابو عبداللہ السبیعی نے کہا کہ یہ رپورٹ وزارت محنت کی بدعنوانی کی علامت ہے۔ اس پر اس کا احتساب کیا جانا ضروری ہے۔
محمد وی آئی پی نامی ایک شہری نے کہا کہ یہ چوری اور سینہ زوری والی بات ہے۔ بیشتر لوگ بے روزگار ہیں۔ سعودی شہریوں پر 10 سال کا تجربہ ، 20 کمپیوٹرپروگراموں سے واقفیت اور 5زبانوں پر عبور جیسی شرائط لگائی جارہی ہیں۔ غیر ملکیوں کو سعودی پر اس لیے ترجیح دی جارہی ہے، کیونکہ وہ معمولی معاوضے پر کام کرنے کے لیے راضی ہوجاتے ہیں۔

شیئر: