Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کو پولیو سے پاک کرنے کی امیدوں پر پانی کون پھیر رہا ہے؟

بعض علاقوں میں والدین اپنے بچوں کو ویکیسن پلائے جانے کا جھوٹا دعویٰ کرتے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان میں پولیو کے خاتمے کی مہم کو نئے اور بڑھتے ہوئے پولیو کیسز سامنے آنے کے بعد سخت دھچکہ لگا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بڑی تعداد میں نئے پولیو کیسز سامنے آنے کے بعد ویکیسن کے معیار پر شکوک و شبہات بڑھے ہیں اور حکام کو اس موذی مرض کی روک تھام کے لیے اپنی حکمت عملی پر نظرثانی پر مجبور کر دیا ہے۔
پاکستان اس وقت دنیا کے ان تین ملکوں میں سے ہے جو پولیو سے متاثر ہیں۔ دیگر دو ملک افغانستان اور نائجیریا ہیں۔
پاکستان کے محکمہ صحت کے حکام کے مطابق پولیو ویکسین کی مہم سے اس موذی مرض میں کمی لائی گئی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ 1988 میں پاکستان میں پولیو کے کسیز کی تعداد ساڑھے تین لاکھ سے زائد تھی جو 2014 میں 306 رہ گئی۔
روئٹرز کے مطابق حکام نے خیبر پختونخوا کے شمال مغربی علاقے میں پولیو کے بڑھتے کیسز پر تشویش کا اظہار کیا ہے جہاں سے صوبے کے 41 میں سے 33 پولیو کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق علاقے سے حاصل کیے گئے پانی کے نمونوں میں اس وائرس کی نشاندہی کے بعد محکمہ صحت میں تشویش ہے اور یہ ویکیسن پلائے جانے کی مہم میں طویل وقفوں کی علامت ہے۔
خبر رساں ادارے کے مطابق حکام کی سال کے اختتام تک پولیو کے خاتمے میں خاطر خواہ کامیابی کی امیدیں دم توڑ گئی ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے حکام مشکلات کے باوجود پولیو کے خاتمے کے لیے سرگرم ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

پولیو کے خاتمے کی مہم میں وزیراعظم عمران خان کے فوکل پرسن بابر عطا نے روئٹرز کو بتایا کہ ’ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ کچھ مسائل ہیں اور ہمیں مسئلے کی جڑ تک پہنچنے کی ضرورت ہے۔
خبر رساں ادارے کے مطابق دور دراز اور پسماندہ علاقوں تک پہنچنا، خاص طور پر کراچی جیسے بڑے شہروں میں نقل وحرکت کرنے والے افراد تک پہنچنا اور ان کے کوائف جمع کرنا انتہائی مشکل ہے۔
روئٹرز کے مطابق پولیو کے خاتمے کی مہم کو اسلام پسندوں کی جانب سے مخالفت کا سامنا ہے جن کا کہنا ہے کہ اس طرح مغرب مسلمان بچوں کو متاثر کرتا ہے یا پھر جاسوسی کی جاتی ہے۔
ادارے نے پشاور میں مقیم ایک بین الاقوامی تنظیم سے وابستہ اہلکار کے حوالے سے بتایا ہے کہ پولیس ویکیسن کی مہم کے دوران کئی علاقوں میں والدین اپنے بچوں کی انگلیوں پر خود ہی نشان لگا کر کہتے ہیں کہ ان کو ویکسین دی جا چکی ہے۔
اہلکار کے مطابق بچوں کی انگلیوں پر جعلی نشان لگانے کے اس کام میں بعض اوقات پولیو ویکسین پلانے والے محمکہ صحت کے ملازم بھی شامل ہوتے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے محکمہ صحت کے ایک سینیئر اہلکار نے بتایا کہ مقامی حکام جان بوجھ کر پولیو کیسز کا اصل ڈیٹا نہیں بتاتے کیونکہ ان کو خدشہ ہوتا ہے کہ اس طرح ان پر ویکیسن مہم پوری طرح نہ چلانے کا الزام آئے گا۔
سینیئر اہلکار کے مطابق ’انہی چھپائے گئے اعداد و شمار کی وجہ سے ہم آج اس موذی مرض کے پھیلنے کی صورتحال سے دوچار ہیں۔‘
پاکستان میں پولیو ویکسین پلانے والے افراد اور ان کی سیکورٹی پر مامور اہلکاروں پر کئی حملے بھی ہو چکے ہیں جن میں کئی لوگ مارے گئے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے ترجمان اولیور روز نبیور کے مطابق پاکستان میں کچھ مشکلات ہیں اور افغانستان کے ساتھ سرحد پر خاندانوں کی نقل وحرکت بھی اس مرض کے خاتمے میں ایک رکاوٹ ہے جن کے بچوں کو ویکیسن پلایا جانا یقینی بنانا بھی آسان نہیں۔
ترجمان کے مطابق حکام پولیو خاتمے کے پروگرام کو درپیش ان تمام مشکلات کا جائزہ لے رہے ہیں تاکہ بہتر اور نیا طریقہ کار اختیار کیا جا سکے۔
اولیور روز نیبور نے کہا کہ ’معاملات جس رخ میں جا رہے ہیں اگر اسی طرح چلتے رہے تو یہ سب پر واضح ہے کہ ہم پاکستان میں پولیو ختم نہیں کر سکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم اس کو پھیلنے سے روک سکتے ہیں لیکن ہمارا صرف یہ مقصد نہیں۔ مقصد اس کا خاتمہ ہے۔‘

شیئر: