Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’مسافروں نے خود ایمرجنسی ایگزٹ کھولے اور باہر نکلے‘

گلگت ایئر پورٹ پر لینڈنگ کے دوران پی آئی کا اے ٹی آر طیارہ پی کے 605 رن وے سے کچے میں پھسلا تاہم مسافر کسی بڑے حادثے سے محفوظ رہے۔
پی آئی اے کے ترجمان کے مطابق پائلٹ نے مہارت سے طیارے پر قابو پالیا، تمام مسافر خیریت سے ہیں۔
۔ترجمان کے مطابق پی آئی اے کے سی ای او ایئر مارشل ارشد ملک نے واقعے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔
یہ طیارہ سنیچر کی صبح اسلام آباد سے گلگت جارہا تھا۔ طیارے میں 40 سے زیادہ مسافر سوار تھے جس میں بچے اور خواتین بھی شامل تھے۔

پی آئی اے کے ترجمان کے مطابق پائلٹ نے مہارت سے طیارے پر قابو پالیا، تمام مسافر خیریت سے ہیں۔ فوٹو: ٹوئٹر

حادثے کے بارے میں ایک مسافر ہارون بلوچ نے گلگت ایئرپورٹ سے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پروز اپنے معمول پر تھی لیکن جیسے ہی ایئر پورٹ کے رن وے پر جہاز اترنے لگا تو رفتار زیادہ ہونے کی وجہ سے پھسل کر کچے میدان میں چلا گیا۔
ان کے مطابق ’جب مسافروں کو یہ محسوس ہوا کہ لینڈنگ معمول کی نہیں تو سب نے ورد شروع کیے اور مسافروں نے خود ایمر جنسی کے ایگزٹ کھولے اور خود ہی باہر نکلنے لگے۔‘
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ جہاز کے شیشے ٹوٹ گئے تھے، کچھ مسافروں کو خراشیں بھی آئیں اور ایک مسافر کو سر پر چوٹ آئی۔ جن کو ہسپتال لے جایا گیا۔
ہارون بلوچ کا کہنا تھا کہ ایئر پورٹ پر حکام مسافروں کے پاس نہیں آئے لیکن تھوڑی دیر بعد چیف سیکریٹری آئے اور انھوں نے بتایا کہ پائلٹ سے جہاز نہیں رک سکا۔
ان کے مطابق مسافر تو خوفزدہ تھے ہی لیکن عملے کے اراکین بھی خوفزدہ ہوگئے تھے۔

2016 میں چترال سے اسلام آباد پرواز کے دوران اے ٹی آر جہاز کو حویلیاں کے قریب حادثہ پیش آیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

اسی طیارے کی ایک مسافر ماروی نے اردو نیوز کو ٹیلی فون پر بتایا کہ وہ پہلی بار جہاز سے گلگت کے لیے روانہ ہوئیں تو ان کے ذہن میں چند برس پہلے چترال سے اسلام آباد آنے والے اے ٹی آر جہاز کے حویلیاں میں گر کر تباہ ہونے والا حادثہ تھا جس کی وجہ سے خوفزدہ بھی تھیں۔
’خاندان اور دوستوں نے راستے کے بارے میں کہا تھا کہ فضائی سفر خطرناک ہے، خوف بھی تھا لیکن وہ یہ توقع نہیں کر رہی تھیں کہ حادثہ ہو جائے گا۔‘
ارشد محمود بھی ماروی کی طرح پہلی دفعہ گلگت بذریعہ جہاز جا رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا ’وہ دل کے مریض ہیں، دو دفعہ انجیو گرافی ہوئی ہے، ایک دم ہی ان کے دل کی دھڑکن تیز ہوئی تاہم وہ قریب میں بیٹھے ایک بچے کو دلاسہ دینے لگے کیونکہ وہ بہت زیادہ رو رہا تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا ’جہاز ایک دم سے نیچے آیا، بہت ہی تیز رفتاری سے رن وے سے نکلا، اور کچے میں گیا، اگر یہ اور تیز جاتا تو رن وے کے اس پار آبادی تھی جس سے زیادہ نقصان ہوسکتا تھا۔‘
ارشد محمود کہتے ہیں کہ وہ گلگت آنے کے لیے پرجوش تھے، اور آنے کی جلدی بھی تھی لیکن اتنی بھی جلدی نہیں تھی کہ حادثہ ہو۔‘

شیئر: