Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عائشہ جہانزیب کا کالم: مصیبتوں سے لڑنا زندگی ہے!

پیاری امّی جان!
السلام علیکم
امّی جان اُمید کرتا ہوں یہ خط جب آپ کے ہاتھ میں ہوگا تب آپ اِطمینان سے ہوں گی کیوں کہ شاید اس کہ بعد اطمینان نہ رہے۔  
میں نے کئی بار چاہا کہ آپ کو لِکھوں مگر ہر بار یہی ڈر تھا کہ آپ سمجھ نہیں پائیں گی جس اذیت اور کرب سے میں گُزر رہا ہوں اور نہ ہی میں آپ کو سمجھا پاؤں گا کہ میرا دُکھ کیا ہے۔
امّی جان! آپ نے ہر بار میرا ساتھ نبھایا ہے لیکن میں اپنی حرکتوں سے باز نہ آیا اور آپ نے ہر بار میری سبھی نادانیوں کو معاف کر دیا۔ سوچتا تھا کہ شاید آپ سے یہ سب کہنے کا اب کبھی موقع نہیں آئے گا مگر آج بڑی تکلیف میں اپنے کرب کو الفاظ میں بیان کر رہا ہوں۔
امّی زندگی سے ہارے ہوئے اس کھوٹے سِکے کو چلایا ہے آپ نے، آپ ہی نے  ہر بار نئے دھوکے سے نمٹنا سکھایا اور ہمت دلائی۔ میں ہر بار ناکام ہوا اور آپ ہر بارعمروعیار کی زمبیل سے کوئی جادو کی چھڑی نکال ہی لاتیں اور میں پھر ایک نیا سفر باندھ لیتا۔ آپ کی بے پناہ محبت کے جذبے نے مجھے اِس بات پر آمادہ کر لیا تھا کہ آپ ہی کے لیے مجھے کچھ کرنا پڑے گا۔
امّی جان اِس خط کے بعد آپ کو مجھ سے کوئی شکایت نہیں ہوگی۔ جی جی! میں جانتا ہوں وہ تو اب بھی نہیں ہے۔
میں نے آپ کے ہاتھ سے وقت کے طوفان کو گزرتے دیکھا ہے۔ وہ طوفان گُزر تو گیا مگر آپ کے چہرے پر اپنے داغ اور جُھّریاں چھوڑ گیا۔ آپ نے گئے وقت کے صَفحوں سے اپنے نام کو مٹتے دیکھا ہے۔ میں نے آپ کی آنکھوں کی مدھم ہوتی چمک دیکھی ہے۔ آپ نے سارا بوجھ خود ہی اُٹھایا، مجھ پر تو آنچ نہ آنے دی۔
ماں ہمارے ملک میں ہر سال 5500 لوگ خود کشی کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ میری طرح کشمکش کا شکار ہوتے ہیں اور باقی جانتے بھی نہیں کہ وہ کیوں کرنے جارے ہیں خود کشی۔
ماں میں نے کہا تھا نا کہ میرا سفر بہت لمبا ہے۔ میں بہت سوچ چکا ہوں، پڑھ چکا ہوں خود کشی کے بارے میں اور اِس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ میں اس دنیا کے لائق نہیں ہوں۔ جس دنیا میں مظلوموں کا استحصال ہو،جہاں دنیا کے لوگ سوائے اپنا مقصد حاصل کرنے کے اور کچھ نہیں کرتے۔ 

ملکوں میں جنگ اِس لیے چِھڑی ہے کہ زمین میں تیل موجود ہے۔ لوگ اِس لیے موت کے گھاٹ اُتار دیے جاتے ہیں کیونکہ وہ کسی ایسے مذہب کے ماننے والے ہیں جو آپ کے لیے خطرے کا باعث ہے، جس ملک میں آپ رہتی ہو ماں وہاں تو عجیب ہی تماشا ہے۔ اَفرا تفری کا عالم ہے ہر شخص پیسہ کمانے کے چکر میں بھول گیا ہے کہ وہ انسان بھی ہے، دوسروں کا گوشت نوچنے والا حیوان نہیں۔ اِنسان چَھتوں سے گِررہے ہیں، گولیاں مار رہے ہیں کبھی خود کو، پنکھوں سے جھول رہے ہیں، جھیلوں میں گررہے ہیں، مگر کوئی بھی اثر نہیں۔ ماں سب چین کی زندگی جی رہے ہیں۔
ماں جب میں تجھ سے بِچھڑکر نوکری کے لیے پردیس آیا تھا تو تیری تصویر سے یوں لِپٹا تھا جیسے وہ تصویر نہیں تو خود ہے۔ کئی بار سوچا تجھے اپنے پاس بلا لوں، تیری گود میں سِررکھ کر روؤں مگر میرے اندر کے مرد نے اِس کمزوری کی اِجازت نہیں دی۔
کئی بار سوچا اتنے اچھّے عُہدے پر فائض ہوں، بچوں کی زندگیاں بنا رہا ہوں لیکن کیا کمی ہے؟ کمی نظر تو نہ آئی مگر کمی تو ہے۔ میں ایک خلا میں جی رہا ہوں اور جتنا نکلنا چاہتا ہوں اِس بھنور میں اور دھنستا جاتا ہوں۔
تیرے آنگن میں جب ہم سب کھیلتے تھے توآپ اُن سب کو مجھے کوجا کہنے سے منع  کردیتیں اور میں ہنستا رہتا، چہرہ مُسکراتا تھا۔
ماں! اب دل آپ کے لیے آنسو بہاتا ہے کہ آپ جیسی حسین عورت کی قسمت میں میں ہی کیوں تھا؟  
 
ماں ایک دفعہ بڑی ہمت کر کے میں ماہرِ نفسیات کے پاس چلا گیا کہ شاید مجھے کسی علاج کی ضرورت ہے، ماں میں بھاگ آیا ڈاکٹر کے پاس سے کہ ڈاکٹر کا قلم تو مجھے دوا لِکھ دے گا مگر یہ میری زندگی کی حقیقت بن جائے گی۔ ’پاگل‘، کیسے مٹاؤں گا یہ لفظ اپنی ہستی سے کیسے؟
ماں میں تیرے قابل نہیں تھا تو نے میرے ہر تاریک راستے کو روشن کر دیا مگر ماں میرے اندر کوئی روشنی نہیں ہے۔ میں نے کئی راتیں تاریک و ویران جگہوں پر جاگ کر کاٹی ہیں کہ شاید میرے اندر سے کسی روشنی کی کوئی خوشبو آئے۔ 
ماں مجھے خود سے حیوانیت کی بو ہی آئی ہے۔ میں تجھ جیسا نہیں ماں میں آدم ذات ہوں۔
میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں اِس کرب سے آزادی چاہتا ہوں۔ مجھے اب سکون چاہیے۔ میں خود کو بہت سوچ سمجھ کر موت کے حوالے کر رہا ہوں۔ جب آپ یہ خَط پڑھیں گی آپ کو لگے گا شاید میرے دل و دماغ پر کسی کا اثر ہے۔ ماں میں اپنے ہوش میں اپنے اوپر والے کو حاضر رکھ کر یہ قدم اُٹھا رہا ہوں۔ ہو سکے تو میرے بغیر بھی ایک مضبوط زندگی گُزارنا۔ مجھ جیسے ناکارہ انسان کو یاد کر کے اپنا قیمتی وقت ضائع نہ کرنا۔
میری موت کا صرف میں ذمہ دار ہوں۔ میں اپنی زندگی سے کوئی بھی خوشی حاصل نہیں کر پایا۔ اِسی  لیے اِسے جینے کا حق میں گنوا چُکا ہوں۔
خدا حافظ۔ 

جب بھی اِس قِسم تحریر میری نظر سے گزرتی ہے میری روح کانپ جاتی ہے ایسے لوگوں کا سوچ کر جو موت کو راہِ فرار سمجھ کر خودکشی  کر لیتے ہیں۔
یہ زندگی مصیبت نہیں، مصیبتوں سے لڑنا زندگی ہے۔ اوہ خدا کی بنائی ناشُکری مخلوق! وہ ماں جو تمھاری خوشیوں کے خواب سجائے بیٹھی تھی اُس کی آس امید سب ٹوٹ گئیں، اپنی آنکھوں میں تمھاری کامیابی کی مشعل جلائے ہوئے تھی جو ماں اب کہاں مسکرائے گی۔ وہ باپ جو تمھیں کاندھوں پر لیے دوڑتا تھا اب اس باپ کے کاندھے تمھاری لاش اُٹھانے سے اور جھک گئے ہیں۔
وہ باپ جو تمھارے جوان ہونے کی اُمید لگائے بیٹھا تھا اب شاید ہی کبھی بولے۔ اپنی خوبصورتی اپنی اناّ اپنی اکڑ کو بھٹی میں جھونک کر تمھیں زندگی کی موج کروانے والے اب کسے آواز دیں گے اتنا بڑا فیصلہ کر لیا تم نے اور تمھارے پیدا کرنے والے اب تا حیات صرف تمھارے نام کو یاد کر کر آنسوؤں میں اپنی زندگی گزاریں گے۔ 

شیئر: