Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مُلک کا مستقبل آج سڑک پر

کچھ دن پہلے میرے شو میں ایک بہت ہی جذباتی خاتون آئی تھیں۔ میں اُن کے جذبے کی بے حد قدر کرتی ہوں اور خدا  کرے کہ اُن کا جذبہ ہمارے وطن کے بچوں کے لیے کام کر جائے جو اس وقت جب کہ رات کے 23 : 2  منٹ ہو چکے  ہیں، سڑکوں پر انجانےخطروں سے لڑ کر اپنے خاندان کا پیٹ پال رہے ہیں۔
یہ انسانی دماغ بھی عجیب چیز ہے، لمحوں میں آپ کو صدیوں کا سفر کروا سکتا ہے۔ آپ لوگوں کو لگ رہا ہوگا کہ میں اپنی بیوقوفی میں کیا بکواس کر رہی ہوں۔ حقیقت بہت کڑوی اور ہیبت ناک ہے۔
کچھ روز سے دل میں بہت بے چینی تھی۔ مجھے میرے بچپن کی باتیں کچھ زیادہ ہی ستانے لگی تھیں۔ میں سمجھتی ہوں کچھ لوگ بہت ہی قسمت والے ہوتے ہیں جنھیں ماضی کی یاد نہ تو ستاتی ہے اور نہ ہی بچپن کے قصے یاد رہتے ہیں۔
میں اُن لوگوں میں سے ہوں جنھیں وقت، چیزیں، باتیں اور لوگ یاد رہتے ہیں. یادِ ماضی عذاب ہے یا رب۔
 ہمارے بچپن میں مجھے کوئی بچہ سڑکوں پر بھیک مانگتا نظر نہیں آتا تھا۔ نہ دن میں اور رات میں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا لیکن اب جب سے ہم خود بڑے ہوے ہیں اور زمانے کے پیچ وخَم دیکھے ہیں اب دن بہ دن سڑکوں پر فقیر بچوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

پاکستان میں بچوں کی ایک بڑی تعداد سکولوں سے باہر ہے: تصویر اے ایف پی

 میں اُس خاتون کا ذکر کر رہی تھی جو چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی چیف ہیں. اُن کا نام سارہ ہے اور وہ نہایت  ہی خوبصورت شخصیت کی مالک ہیں، تحریک انصاف کے لیے اُن کے جذبات اور وفاداری دیکھ کر مجھے بہت ہی اچھا لگا۔
میرے ضمیر نے بہت ملامت کی مجھے کہ بی بی تم کیا کر رہی ہو اوردیکھو وہ کیا کر رہی ہیں. میں انگریزی میں تحریریں لکھنے کی شیدائی ہوں اور میری سب سے بے بس تحریر ایک بھکارن کے بارے میں ہے جوبچپن میں گھر سے ناراض ہو کر چلی جاتی ہے اور مافیا کہ ہاتھ لگ جاتی ہے۔
خیرجب میری ذات کا شور سمندر کی لہروں کی طرح دماغ کے کناروں پر ٹوٹتا ہے تو میں اکثر رات کو ڈرائیو پر نکل جاتی ہوں۔ خاموش اندھیرا، درختوں کے ساۓ،  ٹاواں ٹاواں انسان اور طرح طرح کے دماغ سڑکوں پر چلتے نظر آتے ہیں تو دل بہل جاتا ہے۔

عائشہ جہانزیب کے مزید کالم پڑھیے

زندگی مرنے اور سماج جینے نہیں دیتا

دیو، پری۔۔۔ یہ سب آخر کیا چکر ہے؟
 
ڈرائیونگ مجھے بہت پسند ہے اور لوگوں کے دماغ پڑھ کر مجھے بے حد تسکین ملتی ہے۔ اشاروں پر میک اپ اور فیشن سے لدے ہوے خواجہ سرا مختلف طریقوں سے خود کو بیچنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں. کچھ عورتیں جھولی میں سوتا بچا لے کر کبھی خدا کے نام پر تو کبھی  کسی کی بلاؤں کے نام پر، کبھی گاہک ڈھونڈھ لیتی ہیں تو کبھی پیسہ۔
کبھی بزرگ مرد یا عورتیں گاڑی کے ساتھ لگ کر تقاضا کرتے ہوئے پیسے مانگتے ہیں جھوٹی سچی دعاؤں کے ساتھ تو کبھی پیسے نہ ملنے پر بد دعائیں دیتے ہوئے چلتے چلے جاتے ہیں۔ کبھی کوئی کوڑھ زدہ انسان ہاتھ پھیلاتا نظر آتا ہے تو

حکومت کے متعدد دعوؤں کے باوجود بچوں کو سکولوں میں بھیجنے کے ہدف پورے نہیں ہوتے: تصویر اے ایف پی

کبھی کسی لنگڑے کو دیکھ کر ترس آتا ہے۔ بھکاری کہاں نہیں ہوتے؟ میں نے عمرے کے سفر کے دوران کچھ بدقسمت لوگوں کو اللہ  کے گھرکھڑے ہو کر بھی  لوگوں  کا محتاج  دیکھا ہے۔
 پورا جہاں خدا سے مانگتا ہے اور کچھ بدنصیب وہاں بھی  لوگوں سے  ہی مانگتے نظر آئے. میں نے پرنالہِ رحمت کے نِیچے لوگوں کو اللہ کی موجودگی میں اللہ کے بندوں سے مانگتے دیکھا ہے اور میرے اُستاد کہتے ہیں کہ انسان خود بُرا نہیں ہوتا اُس کے  حالات بُرے ہوتے ہیں لیکن انسان اپنے کرداراور اپنی حرکات کا مالک خود ہوتا ہے۔
میرے دل میں بہت بے چینی تھی، میں اُن راستوں پر گاڑی دوڑا رہی تھی جہاں بھکاریوں کی منتخب جگہیں تھیں. اگر آپ باقائدگی سے سڑک کے اشاروں پر رکیں تو وہ لوگ اپنے  مخصوص اڈوں پر موجود ہوتے ہیں۔
رات کا دوسرا پہر تھا، ڈرائیونگ وہیل میرے ہاتھ میں تھا۔ اگلی گاڑی والا دوسری جانب کھڑی ایک بھکارن کو بھوکی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ اشارے کے اس طرف دس  یا گیارہ  سال کا ایک بچہ تھا جو بھورے رنگ کی  شلوار قمیض پہنے میری گاڑی کے دروازے کی طرف بڑھا۔
 اُس کو دیکھ کر میرے چہرے پر ایک  خود ساختہ مسکراہٹ آ گئی۔ وہ بھکاری نہیں تھا اس کے ہاتھ میں موجود ڈنڈے پر گجرے پروئے گئے جیسے کسی نے دھاگے میں قیمتی موتی پرو رکھے ہوں۔ اُس  نے اشارہ کیا جیسے پوچھ رہا ہو‘ خریدنا  چاہوگی  باجی؟’
 میں نے نفی میں سرہلا دیا۔ وہ مسکرایا اور چلا گیا.میں بہت متاثر تھی کیونکہ خود داری کا ڈھونگ کرنے والے دروازے سے  لٹک جاتے ہیں اور پیسے لے کر یا ڈانٹ کھا کر ہی واپس جاتے ہیں۔ اِشارہ کھلنے والا تھا، میں نے ایک لال نوٹ

پاکستان میں ایسے بچوں کی کمی نہیں جن سے محنت مزدوری کرائی جاتی ہے: تصویر اے ایف پی

لہرایا اور شیشہ اتار دیا۔
 وہ بچہ اپنے خیالات میں گم تھا.میں نے آواز دی اور اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا۔
باجی یہ گجرا لے لو
نہیں
تو پھر؟  اُس کا مطلب تھا بی بی پیسے کیوں دے رہی ہو؟
کچھ نہیں، آپ رکھ لیں۔ نہیں باجی لے لو نا۔۔۔ وہ بچہ مجھے پٹھان لگا)
آپ رکھ لیں
باجی راشن دیتی نہیں ہو؟
دے دیا ہے بیٹا
!مجھے بھی دے دو نا باجی
میں نے تقسیم کر دیا ہے. اچھا تو باجی عید آ رہی ہے کپڑے ہی لے دو
ٹھیک ہے کپڑے مل جائیں گے تمہیں، کل رات یہاں ایک بجے
ٹھیک ہے باجی پینٹ شرٹ اور جوتے بھی
اشارہ کھل چکا تھا میں مُسکرا رہی تھی. میری آنکھوں نے اُس معصوم کی آنکھوں کی چمک دیکھ لی تھی جو جھومنا چاہتی تھیں یہ سوچ کر کہ کل اُس کو نئے کپڑے مل جائیں گئے. کل اُس کے پاس نیا جوتا ہوگا۔
 اُس بچے کو کروڑوں کی جائیداد نہیں چاہیے تھی۔ اُس بچے کو برانڈڈ کپڑے درکار نہیں تھے.وہ بچہ کسی بڑی گاڑی یا  بڑے ہوٹل میں بیٹھ کر یا لاکھوں روپے کے کھلونے نہیں چاہتا تھا. اُس کو اُن کپڑوں کے آنے کی خوشی نے ہنسا دیا تھا۔

ہم نے جب بھی بچوں کے لیے کچھ کرنا چاہا ہے صرف اے سی والے کمروں میں بیٹھ کر باتیں ہی کیں: تصویر اے ایف پی

میں اُس بچے کے ساتھ مسکراتے ہوتے رو پڑی تھی۔ مجھ سے نہ کوئی بات ہو رہی تھی اور نہ ہی کچھ دکھائی دے رہا تھا۔
مجھے وہ بچہ اور اُس کی مسکراہٹ کاٹ کر رکھ گئی تھی۔ جن حقیقتوں سے ہم ہر وقت خود کو دور کرنے میں مصروف رکھتے ہیں اُس بچے کی خوشی نے ایک لمحے میں اُن حقیقتوں کو میرے سامنے کھول کر رکھ دیا تھا اوراُن حقیقتوں کے بھیانک سائے میری ذات کے گِرد ناچنے لگے تھے۔
 ہم اپنے بڑے بڑے محلوں، برانڈڈ گھڑیوں، کپڑوں، کھلونوں، طرح طرح کے کھانوں سے بھی اپنے بچوں کے چہروں پر وہ خوشی نہیں لا سکتے جو اِک آس نے  اُس معصوم کے چہرے پر کھلا دی تھی۔ 
ہمارے مُلک کا مستقبل آج سڑک پر ہے اور ہمارے حکمران لمبی تان کر سو رہے ہیں یا پھر آتے بھی  ہیں تو صرف تصویر کھنچوانے۔
ہم نے جب بھی بچوں کے لیے کچھ کرنا چاہا ہے صرف اے سی والے کمروں میں بیٹھ کر باتیں ہی کی ہیں۔ بُلند بانگ دعوے کیے ہیں اور ایک دوسرے کے سینے پر تعریفوں کے میڈل سجائے ہیں۔ ہم صرف آس لگا سکتے ہیں کہ اِن بچوں کا مستقبل بنا دیں گے اور کھا پی کر سو جاتے ہیں اور کچھ نہیں۔

شیئر: