Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’کہاں گیا شملہ معاہدہ؟‘

پاکستانی وزیرخارجہ نے کشمیر کی صورتحال کے باعث فریضہ حج کی ادائیگی کے بغیر وطن واپسی کا فیصلہ کیا ہے
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ انڈیا کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے اقدام سے شملہ معاہدہ دفن ہوگیا۔
منگل کو جدہ میں او آئی سی رابطہ گروپ کے اجلاس کے بعد اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ’اب تک انڈیا دوطرفہ بات چیت کا راگ الاپ رہا تھا لیکن کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا یکطرفہ قدم اٹھایا گیا، ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کے جواب میں بھی نئی دہلی کی طرف سے بیان آیا تھا کہ یہ دوطرفہ معاملہ ہے اور ہم شملہ معاہدے کے پابند ہیں۔ کہاں گیا وہ شملہ معاہدہ؟‘
انہوں نے کہا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ انڈیا نے اس اقدام سے معاہدے کو دفن کر دیا ہے۔ میری رائے میں شملہ معاہدے کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔‘
واضح رہے کہ شاہ محمود قریشی عمرے اور فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب میں موجود ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’یہ بڑی واضح منصوبہ بندی دکھائی دے رہی ہے۔ کئی ماہرین کہہ رہے کہ انڈیا نے یہ بہت خطرناک کھیل کھیلا ہے۔ آج امریکہ کا فوکس افغانستان کے امن واستحکام پر ہے۔ وہ کئی ماہ سے وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے۔ دوحہ میں بات چیت اپنے نازک مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ پاکستان کے مثبت کردار کا ہر کوئی اعتراف کررہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’اس مرحلے پر انڈیا کی طرف سے یہ قدم اٹھانا میں سمجھتا ہوں افغان امن عمل پر ایک وار اور اسے ضرب پہنچانے کے مترادف ہے۔
انہوں نے کہا کہ انڈیا نہیں چاہتا کہ خطے میں امن ہو۔ وہ اپنے عزائم کی خاطر پورے خطے کو داؤ پر لگاناچاہتا ہے ۔ پاکستان امن عمل کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہتا ہے جبکہ انڈیا نے اپنی چال سے اپنے ذہن کی عکاسی کردی ہے۔ 
وزیر خارجہ نے کہا کہ ’میں سعودی عرب عمرے اور حج کی سعادت کے لیے حاضر ہوا تھا۔ میرے علم میں نہیں تھا تاہم خدشہ تھا کہ انڈیا کچھ نہ کچھ کرنے چلا ہے۔ اس خدشے کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان نے کچھ اقدامات اٹھائے۔ اپنے خدشات لکھ کر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو ارسال کیے۔ ان سے درخواست کی تھی کہ ان سب خدشات کو سکیورٹی کونسل میں شیئرکیا جائے۔

گذشتہ روز انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا گیا تھا۔ (فوٹو:اے ایف پی)

ایک سوال پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’میں نہیں سمجھتا کہ مسئلہ کشمیر پر ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کوئی ٹریپ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ تو تشویش تھی۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ اس وقت پاکستان پوری توجہ افغان امن عمل پر دے رہا ہے۔ اگر اس وقت کسی قسم کی محاذ آرائی ہو جاتی ہے تو پاکستان کی توجہ ہٹے گی۔ امریکہ کو افغان امن عمل متاثر ہونے کا خدشہ لاحق ہے۔ اسی لیے اس نے ثالثی کی پیشکش کی جسے انڈیا نے مسترد کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمارا موقف تسلسل سے واضح ہے کہ کشمیر متنازع علاقہ ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اس کا حل تلاش کیا جائے۔‘ 
 ان کا کہنا تھا کہ جدہ میں او آئی سی رابطہ گروپ کے ہنگامی اجلاس میں پاکستان کا موقف واضح طور پر پیش کیا ہے۔ اجلاس نے صورتحال پر تشویش کا اظہار اور انڈیا کے اقدام کی مذمت کی ہے۔ اجلاس کوپاکستان میں جاری مشاورت کے عمل پر اعتماد میں لیا۔ انٹرنیشنل رابطوں سے بھی آگاہ کیا ہے۔ 

 

 شاہ محمود قریشی نے ایک سوال پر کہا کہ اس وقت انڈیا میں جو بی جے پی سرکار ہے، اس کا اپنا ایجنڈا اور سوچ ہے۔ مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کے بارے میں واضح سوچ ہے۔ انہوں نے جو نہرو کا انڈیا تھا اسے دفن کردیا۔ سیکولر امیج کو ملیا میٹ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
ایک سوال پر وزیر خارجہ نے کہا کہ ’پاکستا ن کے پاس قانونی، سفارتی اور سیاسی ذرائع موجود ہیں اورہم ان تینوں آپشن کو ایکسرسائز کریں گے۔ اس معاملے کو لے کر سکیورٹی کونسل میں جا سکتے ہیں۔ وزارت قانون اس بات کا جائزہ لے رہی ہے کہ کیا عالمی عدالت انصاف میں جا سکتے ہیں۔ اس کا دائرہ کار ہے یا نہیں۔ مشاورت کے بعد ہی فیصلہ کیا جائے گا۔‘ 
انہوں نے مزید کہا کہ’ایل او سی مستقل بارڈر بننے نہیں جارہا یہ انڈیا کا یکطرفہ اقدام ہے جس کو ہم تسلیم نہیں کرتے، کشمیریوں نے اسے مسترد کیا ہے اس کی کوئی قانونی پوزیشن نہیں۔‘ 
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ انڈیا نے یہ قدم فوری طور پر نہیں اٹھایا ۔ بتدریج ایک سوچ ابھر رہی تھی ۔ انڈیا کو واضح طور پر دکھائی دے رہا تھا کہ کشمیر ان کے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔

شیئر: