Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’انڈین مال کے بغیر بھی منڈی چلے گی‘

پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشمیر کے مسئلے پر پیدا ہونے والی حالیہ کشیدگی کے بعد حکومت پاکستان نے انڈیا کے ساتھ سفارتی تعلقات محدود اور تجارت مکمل طور پر بند کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
پاکستان میں وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت کراچی نے بھی حکومت پاکستان کے فیصلے کی تائید کی ہے اور کہا ہے کہ تمام تاجر حضرات انڈیا سے کاروباری روابط ترک کرنے کے حق میں ہیں۔
ایوان صنعت و تجارت کے ترجمان طاہر احمد نے اردو نیوز کے نامہ نگار توصیف رضی ملک سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا سے تجارت پہ پابندی جتنا عرصہ بھی چلے تمام تاجر اس فیصلے میں حکومت کا ساتھ دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیر کے معاملے پہ ایوان حکومت کا ساتھ دے گی۔
ایوان صنعت و تجارت نہ صرف عالمی تجارتی برادری کو خطوط کے ذریعے کشمیر میں ہونے والے مظالم سے آگاہ  کرے گا بلکہ انڈیا کے تجارتی اداروں اور مشترکہ فورمز پر بھی اس حوالے سے آواز اٹھائے گا۔
پاکستان اور انڈیا کے مابین تجارت کی بندش پر پاکستان کی منڈیوں پر کیا اثرات پڑیں گے اس بات پر بھی سب کی نظر ہے۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے درالحکومت لاہور کی سبزی منڈی کے تاجر بظاہر تجارت کی مکمل بندش کے حق میں نظر آتے ہیں ۔ اور یہ کہنے کے لیے ان کے پاس بہت سی وجوہات ہیں۔

محمد حنیف نے بتایا کہ سبزی مہنگی ہونے کی وجہ عید قربان کا قریب آنا اور ڈالر ہے۔ فوٹو اردو نیوز

عزت سے بڑھ کر کچھ نہیں

لاہور کی سبزی منڈی کے ایک تاجر محمد ہارون سے جب پوچھا گیا کہ انڈیا سے مکمل تجارتی بندش پر وہ کیا کہیں گے تو ان کا کہنا تھا ’آپ نظر دوڑائیں منڈی پر کیسے کاروبار ہو رہا ہے ہر سبزی اور ہر پھل موجود ہے اور اس سے میں سے کچھ بھارت سے نہیں آیا ہوا۔‘
’ٹماٹر اور آلو تو سال ہوگیا نہیں آرہے کچھ کشمیر بارڈر سے لیموں لہسن آرہے تھے پلوامہ کےبعد ہونے والے معاملات کے بعد اب کئی مہینوں سے وہ بھی نہیں آ رہے۔‘
محمد ہارون کا یہ ماننا ہے کہ تجارت اچھی چیز ہے لیکن اگر اس سے آپ کی عزت نہ ہو تو ایسے پیسے کا کیا کرنا۔
منڈی کے ایک اور تاجر محمد حنیف کہتے ہیں کہ بھارتی سبزیوں سے ہمیشہ نقصان ہی ہوا ہے کیونکہ جب ہمارا کسان سبزی کاشت کرتا ہے تو بھارتی سبزی کے مارکیٹ میں آنے سے اس کے نرخ کم ہو جاتے ہیں صارف کو تو چیز سستی مل جاتی ہے لیکن کسان مارا جاتا ہے اور پھر وہ دوبارہ کاشت ہی نہیں کرتا۔

لاہور کی سبزی منڈیوں میں زیادہ تر آئٹمز پاکستانی ہیں اور کچھ درآمد ہو رہا ہے تو وہ افغانستان، ایران اور چین سے ہے۔ فوٹو اردو نیوز

محمد حنیف نے بتایا کہ اب اگر سبزی مہنگی مل رہی ہے تو اس کی وجہ عید قربان کا قریب ہونا اور ڈالر ہے عید کے بعد کافی کچھ واپس اپنے اصل ریٹ پر آ جائے گا۔ 

بھارت کو چھوڑیں ڈالر پر توجہ دیں

محمد ہارون بتاتے ہیں کہ وہ ادرک اور لہسن درآمد کرتے ہیں اب مال چین سے آرہا ہے تو تجارت ڈالر میں ہو رہی ہے۔
’صرف ایک سال میں مجھے تین کروڑ کا نقصان ہوا ہے اور یہ صرف ڈالر کی وجہ سے ہوا ۔ اس کا دوش کسی اور کو نہیں دیا جا سکتا مارکیٹ پیسے سے چلتی ہے وہ یہ نہیں دیکھتی کہ مال کہاں سے آرہا ہے ایک طرف سے بند ہو تو تین اور راستے کھل جاتے ہیں۔‘ 
انہوں نے بتایا کہ ’ابھی ایک کنٹینر مجھے ساٹھ لاکھ کا پڑ رہا ہے حکومت نے کسٹم ڈیوٹی آٹھ لاکھ سے اٹھارہ لاکھ کر دی ہے کراچی سے لاہور تک اڑھائی لاکھ خرچہ اور کمیشن کے بعد وہ کنٹینر نوے لاکھ تک جا پہنچتا ہے۔ اب گنجی دھوئے گی کیا اور نپیڑے گی کیا؟
ان کا کہنا تھا کہ مسئلہ انڈیا کا نہیں ہماری حکومت کا ہے۔ لاہور کی سبزی منڈیوں میں زیادہ تر آئٹمز پاکستانی ہیں اور کچھ درآمد ہو رہا ہے تو وہ افغانستان، ایران اور چین سے ہے۔

تاجر محمد حنیف کہتے ہیں کہ بھارتی سبزیوں کی درآمد سے ہمیشہ نقصان ہوا ہے۔فوٹو اردو نیوز

تو انڈیا سے پھر آتا کیا ہے؟

بیس سال سے واہگہ بارڈر پر کسٹم کلیئرنگ ایجنٹ کے طور پر کام کرنے والے طلعت بٹ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت بھارت سے جو آئٹمز پاکستان آرہی ہیں ان میں مصالحہ جات، جڑی بوٹیاں، کیمیکلز، رنگ اور سبزیوں کے بیج ہیں۔
انہوں نے بتایا ’انڈین آئٹم بہت ہیں ان کے پاس بہت ورائٹی ہے اور پھر جب سے انڈیا نے پاکستانی مصنوعات پر ڈیوٹی دو سو گنا کی ہے کچھ بھی پاکستان سے بھارت نہیں جا رہا سوائے نمک کے۔ آپ یوں سمجھیں اگر پاکستان بھارت کو ایک لاکھ کا مال بھیجتا ہے تو بھارت سے پچاس لاکھ کا آتا ہے۔‘
انہوں نے سوال اٹھایا کہ یہ کون سی دو طرفہ تجارت ہے اس طرح کی تجارت بند ہی ہو جائے تو بہتر ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کی روزی روٹی تو ایجنٹی سے وابستہ ہے وہ تو سب سے پہلے متاثر ہوں گے تو ان کا کہنا تھا کہ انہیں اس بات کی فکر نہیں وہ کوئی اور کام ڈھونڈ لیں گے۔

پاکستانی کسٹم حکام کے مطابق بھارت اور پاکستان کے مابین سالانہ تجارتی حجم دو ارب ڈالر سے زائد ہے۔ فوٹو اردو نیوز

پاکستانی کسٹم حکام کے مطابق بھارت اور پاکستان کے مابین سالانہ تجارتی حجم دو ارب ڈالر سے زائد ہے۔ جس میں سے بھارت ایک ارب اسی لاکھ اور پاکستان لگ بھی چالیس کروڑ کے سالانہ زر مبادلہ کماتا ہے۔

تجارت مکمل بند ہونے سے کیا ہو گا؟

لاہور ہی کی مصالحہ جات کی مارکیٹ اکبری منڈی وہ تجارتی مرکز ہے جو اس تجارتی بندش سے براہ راست متاثر ہو گا۔ اکبری منڈی کے ایک تاجر سجاد احمد نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اس وقت بڑی الائچی، زیرہ، گوند کتریرا اور اسپعول کا چھلکا بھارت سے آ رہا ہے۔
اکبری منڈی کی زیادہ تر آئٹمز پنسار کی ہیں جڑی بوٹیاں وغیرہ جو بھارت سے آتی ہیں۔ اگر تجارت بند ہوتی ہے تو یہ سپلائی متاثر ہو گی۔‘
ایک سوال کے جواب میں کہ اگر آج بارڈر بند ہوتا ہے تو مارکیٹ پر کتنی دیر بعد اثرات مرتب ہوتے ہیں تو انہوں نے مسکراتے ہوئے اپنے فون سے ایک میسج سکرین پر کھولا جس پر لکھا تھا ’انڈین مال ۔۔۔ نو آفر۔‘

تاجر سجاد احمد کا کہنا ہے کہ آج واہگہ بند ہو گا تو سپلائی کا روٹ بدل جائے گا اور دبئی کے راستے مال پہنچے گا۔ فوٹو اردو نیوز

انہوں نے بتایا کہ مارکیٹ تو فوری زیر اثر آتی ہے رات کو یہ میسج ساڑھے آٹھ بجے میرے بروکر نے مجھے کیا جس کا مطلب تھا کہ بھارتی مال کا آرڈر نہ پکڑا جائے اور اگر کسی کے پاس اسٹاک ہے تو وہ روک لے۔ مارکیٹ پر تو اثر منٹوں میں پڑ جاتا ہے۔
تاہم ان کا یہ کہنا تھا کہ آجکل کے دور میں اب یہ کوئی اتنی بڑی بات بھی نہیں اول تو جو ہماری حالت ہے ہمیں امپورٹ پر انحصار کرنا ہی نہیں چاہیے۔ دوسرا اتنے راستے ہیں کہ اگر آج واہگہ بند ہو گا تو سپلائی کا روٹ بدل جائے گا اور دبئی کے راستے مال پہنچے گا ۔
اس سے ڈیڑھ سے دو ماہ مارکیٹ دباؤ میں رہے گی اور تھوڑے ریٹ بھی بڑھیں گے لیکن چیزیں معمول پر آ جائیں گی۔ ’تو آپ کہ سکتے ہیں کہ بھارت سے مکمل تجارتی بندش کے اثرات کم درجے کے اور عارضی ہوں گے۔‘

شیئر: