Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’سندھی ادب دریا برد ہو رہا ہے‘

عاجز کا کہنا ہے کہ انہوں نے حکومتی بے حسی کی وجہ سے اپنی کتابیں دریا برد کی ہیں۔
ادب انسان میں خاص حساسیت پیدا کرتا ہے اور حق کے لیے ڈٹ جانے کی ہمت بھی۔ سندھی لوک ادب سے متاثر اور اس کی خدمت کرنے والے ایک ادیب نے صاحبانِ اقتدار سے تنگ آکر اپنی زندگی کا کل اثاثہ دریائے سندھ کی نظر کرنے کا مشکل فیصلہ کر لیا ہے۔
سندھ کے صوبے جامشورو کے رہائشی شاعر اور سگھڑ لوک ادب سے وابستہ عاجز رحمت اللہ جمالی نے گذشتہ روز اپنی 200 نایاب کتابیں دریائے سندھ میں بہا دیں تاکہ ان کے مطالبات کی ندا ’ان حکمرانوں تک پہنچ جائے جو لوک ادب کو برباد کرنے پر تلے ہیں۔‘
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے 36 سالہ عاجز، جو کہ سندھ سگھڑ لوک ادب تنظیم (سلات) کے بانی بھی ہیں، نے بتایا کہ انہوں نے کتابوں کو دریا میں بہانے کا فیصلہ 15 سال محنت اور بے لوث کام کرنے کے بعد کیا کیونکہ سندھ میں تمام ادارے اس وقت سفارش پر چل رہے ہیں اور جو کرسیوں پر قابض ہیں انہیں لوک ادب سے کوئی غرض نہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ کسی سیاسی جماعت کا نام نہیں لینا چاہتے مگر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ سندھی ادب کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے اور یہ سراسر صوبے کے حکمرانوں کا کیا دھرا ہے جنہوں نے اقربا پروری کو ترجیح دیتے ہوئے اداروں میں اپنے لوگ بٹھائے ہوئے ہیں۔ ’ان لوگوں کو ادب کی الف ب نہیں معلوم مگر ان کو یہ کرسیاں نواز دی گئیں ہیں۔‘

عاجز کا کہنا ہے کہ وہ اپنے کتب خانے میں رکھی کتابوں کو بے حسی کے نظر ہوتے نہیں دیکھ سکتے۔

عاجز نے بتایا ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے وہ سندھی لوک ادب پر کام کر رہے ہیں اور کتابیں جمع بھی کرتے اور لکھتے بھی ہیں۔ ’میں اپنے کتب خانے میں رکھی ان کتابوں کو بے حسی کی نذر ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔ کچھ ہی دنوں میں اگر اداروں نے میرے 14 مطالبات کو نہیں مانا تو دیگر ایک ہزار کتابیں اور اپنے ایک سو سے زائد جمع شدہ میڈلز، ایوارڈز اور اسناد وغیرہ بھی دریائے سندھ میں بہا دوں گا۔‘
عاجز نے بتایا کہ دل براداشتہ ہوکر انہوں نے یہ انتہائی قدم اٹھایا ہے کیونکہ اب تک ان کی کہیں بھی داد رسی نہیں ہوئی تھی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ سندھ میں اس وقت گیت و ترانوں پر تو کام ہو رہا ہے مگر لوک ادب کو کوئی پوچھنے والا نہیں جبکہ یہ لوک ادب ہی ہوتا ہے جس پر دور حاضر کا ادب کھڑا ہوتا ہے۔
’میں اپنی تعریف کے لیے نہیں بتا رہا مگر ضرورت کے تحت بتا رہا ہوں کہ مجھے میری ادبی خدمات کی وجہ سے سات رنگ پھولوں میں تولہ گیا مگر میرے بار بار مطالبے پر بھی حکمرانوں نے سگھڑ لوک ادب کے لیے ادارہ نہیں بنایا۔‘
عاجز کے 14 مطالبات ہیں جن میں پرائمری سے لے کر یونیورسٹیوں تک سندھی لوک ادب کو نصاب میں شامل کرنا، اس کے لیے اساتذہ کو مقرر کرنا، اس حوالے سے ہر سال ایوارڈز کی تقسیم کرنا اور دیگر شامل ہیں۔
عاجز کو ایک ویڈیو میں اپنی کتابیں دریا میں بہاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی ہے جس پر مختلف لوگ اپنے اپنے انداز میں تبصرے کر رہے ہیں۔ کچھ لوگوں نے جہاں اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے وہیں عاجز سے بھی سوال کیا ہے کہ انہوں نے آخر کتابیں کیوں بہا ڈالیں۔
قیوم نامی ایک ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ کوئی سندھی شاعر ملے تو اسے کہہ دینا کہ سندھی ادب در یا برد ہو رہا ہے۔
سکندر علی نامی صارف نے کہا ہے کہ وہ امید کرتے ہیں کہ عاجز کے اس قدم پر سندھ کے ثقافتی وزیر اس حوالے سے نوٹس لیں اور عاجز کو اپنی کتابیں بہا دینے سے روکیں۔
معروف سندھی ادیب عرفانہ ملاح نے بھی ٹوئٹر پرعاجز کو رکنے کے تلقین کی۔
کوری وقار نامی صارف نے لکھا کہ بہتر ہوتا عاجز یہ معلوماتی کتابیں کسی کتب خانے کے حوالے کردیتے۔

 

شیئر: