کشمیری پرچم کی جگہ انڈین ترنگا؟
کشمیر میں مواصلات کے تمام ذرائع معطل ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
انڈیا نے جب سے کشمیر کو اس کی خصوصی آئینی حیثیت سے محروم کیا ہے تب سے کشمیر دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
اس صورت حال میں وادی میں اگرچہ رابطے کے تقریباً تمام ذرائع بند ہیں مگر افواہوں کا بازار خوب گرم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر کے معاملے پر سوشل میڈیا پر مسلسل گمراہ کن تصاویر اور کہانیاں وائرل ہو رہی ہیں۔
سب سے پہلے چار اگست کو ایک پاکستانی صحافی نے دو تصاویر ٹویٹ کیں اور ان کے ساتھ لکھا کہ یہ نہتے کشمیریوں پر انڈین فوج کے مظالم کی منہ بولتی تصاویر ہیں۔ ان تصاویر کو ایک ہزار بار ری ٹویٹ جبکہ دو ہزار سے زیادہ بار لائک کیا گیا۔
حقیقت میں پہلی تصویر فلسطین کے علاقے غزہ کی ہے جبکہ دوسری تصویر اگرچہ کشمیر کی ہے مگر یہ 2004 میں لی گئی تھی۔
دوسری طرف انڈیا کی معروف پہلوان گیتا پھوگاٹ جن کی زندگی پر فلم 'دنگل' بنی، نے بھی 6 اگست کو بغیر تصدیق کیے ایک تصویر پوسٹ کی۔ جس میں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی کہ پانچ اگست کو انڈین آئین کے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد سری نگر میں سول سیکریٹیریٹ کی عمارت پر سے کشمیری پرچم ہٹا لیا گیا ہے اور اس کی جگہ انڈیا کے پرچم ’ترنگے‘ نے لے لی ہے۔
ان کی اس پوسٹ کے بعد کئی نیوز چینلز نے اسے جھوٹ قرار دیا جبکہ خبر رساں ادارے اے این آئی نے تو فوٹیج بھی جاری کی جس میں کشمیر کا پرچم لہراتا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔
گیتا پھوگاٹ کی شیئر کی گئی تصویر میں فوٹو شاپ کی تکنیک کا آسانی سے استعمال کرتے ہوئے کشمیر کے پرچم کو ہٹایا گیا تھا۔
تاہم گیتا نے اپنی دوسری ٹویٹ میں کہا کہ 'تصویر فوٹوشاپ کی ہوئی ہو سکتی ہے لیکن اس تصویر کا تصور بہت خوبصورت ہے اور بہت جلد یہ سچ ہو جائے گا۔'
ان کی یہ ٹویٹ 700 سے زیادہ بار ری ٹویٹ ہوئی جبکہ اسے لگ بھگ آٹھ ہزار بار لائک کیا گیا۔
کشمیر میں زمین خریدیں
کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد جہاں بہت سے لوگوں کے دل میں خوبصورت کشمیری لڑکیوں سے شادی کے ارمان جاگے وہیں سوشل میڈیا پر کشمیر میں زمین کے فروخت ہونے کے اشتہار بھی گردش کرنے لگے۔
یہ اشتہار واٹس ایپ گروپس میں گردش کرتے ہوئے بھی دکھائی دیے۔ اپرنا نامی ایک صارف نے ٹویٹر پر ایسے ہی ایک اشتہار کے جواب میں لکھا کہ 'تو اب یہ سب شروع ہو گیا ہے، تم انڈیا کے لیے باعث شرم ہو۔'
خیال رہے کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے تحت وہاں زمین یا جائیداد خریدنے کا حق کشمیر کے مستقل باشندوں کے علاوہ کسی کے پاس نہیں تھا۔
اسی طرح کرنل وجے آچاریہ نام کے ایک ٹویٹر ہینڈل نے ٹویٹ کی کہ انہوں نے انڈین فوج سے اپنا عہدہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی اپنے ہی آدمیوں کو کیسے مار سکتا ہے۔
ٹویٹ میں مزید کہا گیا کہ گذشتہ رات پاکستان نے ان کی یونٹ کے 25 جوانوں کو ہلاک کر دیا لیکن میڈیا نے اس کی رپورٹنگ نہیں کی۔
بعد میں پتا چلا کہ یہ فیک اکاؤنٹ سے کی گئی ٹویٹ تھی اور کرنل وجے آچاریہ پہلے ہی فوج سے ریٹائر ہو چکے ہیں۔
این کے سود نامی ایک صارف نے جو یہ کہتے ہیں کہ وہ انڈیا کی انٹیلیجنس ایجنسی را کے سابق اہلکار ہیں اور ایک کتاب کے مصنف ہیں لیکن ان کا اکاؤنٹ تصدیق شدہ نہیں ہے، نے ایک تصویر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ 'یہ بے روز گار (کانگریس رہنما) غلام نبی آزاد کا مکان ہے۔ دیکھیں کہ انہوں نے لوٹ مار سے کتنا پیسا حاصل کیا ہے۔‘
اس ٹویٹ کو بعد میں ہٹا لیا گیا لیکن ہٹانے سے قبل اسے ایک سو سے زیادہ بار ری ٹویٹ کیا جا چکا تھا۔
گبر نامی ایک صارف نے این کے سود کی اس ٹویٹ اور تصویر کی حقیقت کو واضح کرتے ہوئے دو تصاویر پوسٹ کیں اور لکھا کہ ’خواتین و حضرات یہ ہیں را کے سابق افسر جو کشمیر کے تاج ویوانتا ہوٹل کو غلام نبی آزاد کا گھر بتا رہے ہیں۔ اس طرح کی ناقابل یقین پہنچ ہے انڈیا کے انٹیلیجنس سروسز کی۔'
افواہوں کا بازار گرم ہے اور روز نئے نئے شگوفے کھل رہے ہیں۔ ہوشیار باش!