Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انسانوں کی قربانی جائز نہیں‎

چاہے کوئی دوسرا مانے یا نہ مانے سعدیہ ایک پکی اور سچی پاکستانی ہے۔ حب الوطنی کا سرٹیفیکیٹ ملے نہ ملے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اہل عقل کے لیے نشانیاں ہی کافی ہیں۔ قومی حمیت کا تقاضا پورا کرتے ہوئے آج تک کبھی کوئی ضروری کام وقت سے پہلے نہیں کیا۔ اسی کالم کی مثال لیجیے۔
ایڈیٹر صاحب چاہتے ہیں کہ انہیں جمعے تک تحریر موصول ہو جائے۔ جمعرات کی رات ہونے کو آئی ہے اور ہم ابھی بھی بریانی کو دم لگا رہے ہیں۔ ڈیڈ لائن کا کیا ہے۔ جمعہ بھی یہیں، ہم بھی یہیں، ایڈیٹر صاحب تو خاص طور پر یہیں۔
بات یہ نہیں کہ لکھنے کا وقت نہیں ملتا۔ بات یہ ہے کہ ترجیحات مختلف ہیں۔ اب تو چار لوگ کالم پڑھنے لگے ہیں۔ کچھ دو چار برا بھلا بھی کہہ دیتے ہیں۔ ذرا تواتر سے لگے رہیں تو شاید کل کو مزید نام بڑھے۔ کتاب چھپے۔ تقریب رونمائی ہو۔ لال فیتہ کٹے۔ مکمل کے بیک ڈراپ والے سٹیج پر مشہور ادیبوں کے بیچ میں لال بارڈر والی سفید ساڑھی پہنے بیٹھے ہوں۔
اپنی سنہری فریم کی عینک کی نازک چین کو آگے پیچھے گھماؤں۔ لکڑی کے ڈائس پر کھڑے مشہور اداکار فراز خان جو سٹیج سیکرٹری کا فرض نبھا رہے ہوں۔ تقریر کے لیے ہمارا نام پکاریں اور ہم تمکنت سے اپنا لال پلو جھٹکتے ہلکے ہلکے قدم اٹھاتے سٹیج کی طرف بڑھیں۔ تالیوں کی گونج ہماری روح تک کو سرشار کر دے۔

لیکن ایسا کیونکر ہو؟ ہمیں تو بریانی کو دم لگانا ہے۔ نئے دن کے کپڑوں کو استری کر کے الماری میں لٹکانا ہے۔ گلابوں کو پانی دینا ہے۔ سر شام خوشبودار موم بتیاں سلگانی ہیں۔ خود کو بہترین بیوی اور بہو ثابت کرنا ہے۔ اپنے مستقبل پر شوہر کی پسندیدہ بریانی کو ترجیح دینی ہے۔ اسی امید پر تمام عمر گزار دینی ہے کہ قربانی ہی کسی بھی انسان کی زندگی کا اثاثہ ہے۔ اچھا شخص وہی ہے جو اپنے خوابوں کا گلا اپنے ہاتھ سے گھونٹ دے۔ اپنی تمناؤں کو اپنی ہی ہتھیلی پر بے رحمی سے مسل دے۔ آخر شریفوں کا یہی وطیرہ ہے۔
یوں تو قربانی اور ایثار کا پیکر عورت کو ہی سمجھا جاتا ہے۔ شادی ہو یا بچے پالنے کا موقع ہو، اپنا کرئیر گھر بار سب کچھ عورت کو ہی قربان کرنا ہوتا ہے۔ بیٹیوں کی شروع سے ہی یہ تربیت کی جاتی ہے کہ اپنی خواہشات کا گلا جتنی زور سے گھونٹو گی اتنی ہی اچھی عورت کہلاؤ گی۔ باپ کی عزت پہ قربان ہو جاؤ۔ گھر میں جس قدر طوفان آئیں، میاں کا بھرم رکھنے کی قربانی دو۔ بچوں کی خاطر اپنا آپ مار کر خود کو ایثار کا پیکر ثابت کر دو۔ میاں اور سسرال کی خاطر اپنا آپ تیاگ دو۔
لیکن صاحب، یہاں مرد بھی عورتوں کے شانہ بشانہ چلنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ کتنے ہی باپ ایسے ہیں جو ملک اور گھر سے دور اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم اور سہولتیں دینے کی خاطر دن رات کولہو کے بیل کی طرح جتے ہوئے ہیں۔ بہنوں کی شادی کرنے کے لیے اپنی جوانی کا ایک ایک پل اور خون کا ایک ایک قطرہ قربان کرنے پر مصر ہیں۔ اپنی محبت سے صرف اس لیے دستبردار ہونے کو تیار ہیں کہ گھر والوں اور معاشرے کی ’عزت‘ میں کمی نہ آئے۔ اپنی جائز خواہشات کو صبح شام کچل رہے ہیں کہ ان کا اظہار کہیں ان کو ایثار کے دیوتا کے مندر سے باہر نہ نکال دے۔

یوں تو ہمارے مذہب میں قربانی کے لیے ایک خصوصی دن بھی مقرر کیا گیا ہے لیکن ہم ہیں کہ پورا سال قربان ہوئے جاتے ہیں۔ انسانوں کو جانوروں کی قربانی کا حکم دیا گیا ہے لیکن ہم ہیں کہ اپنی ذات کی ہی قربانی پر مصر ہیں۔ ہمیں قربانی اور ایثار دینا ہی انسانیت کی معراج لگتا ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ یہ معاشرہ ہمیں قبول ہی تب کرے گا جب ہم اپنی ذات کے چہرے پر کپڑا ڈال کر اس کا سانس بند کر دیں۔ وہ لاکھ ہاتھ پیر چلائے ہم نہ مانیں۔ لاش کو بھی جلا کر راکھ کر دیں کہ چڑھتا سورج مرا ہوا منہ بھی نہ دے پائے۔ 
ویسے آپس کی بات ہے کہ اس ہی سفاک معاشرے میں قربانی کی قربانی کچلنے والے بھی آستینیں چڑھائے بیٹھے ہیں۔ قربانی اور ایثار کا پیکر بیویوں کو چھوڑ کر جوان لڑکیوں سے نئی شادیاں رچا لینے والے بھی موجود ہیں۔ اپنی زندگی اولاد کی خاطر قربان کر دینے والی ماؤں کو گھر سے نکال دینے والے بچے بھی موجود ہیں۔ شوہر اور سسرال کی خدمت میں اپنا کرئیر نچھاور کر دینے والی بیٹیوں اور بہوؤں سے برا وقت آنے پر نظریں پھیر لینے والے سسرال بھی موجود ہیں۔
اپنے آپ کو اپنے گھر والوں کے سکون پر قربان کرنے والے ان غیر ملک مقیم محنت کشوں کی کل کمائی ہتھیا لینے والے بھتیجے بھی موجود ہیں۔ اپنے شوق اور خواب کسی کی خاطر قربان کر دینے والوں کو یہ کہنے والے بھی موجود ہیں کہ ’آخر تم نے ہمارے لیے کیا ہی کیا ہے؟‘

آپ جب تک کسی کو فائدہ دے پائیں آپ سر آنکھوں پر ہیں۔ جوں ہی آپ کا سورج ڈھلے اپنا بوریا بستر سمیٹ لیجیے۔ اس معاشرے نے تو جان کی قربانی دینے والی نسلوں کو نہیں بخشا۔ آپ کس کھیت کی مولی ہیں؟
بس پھر انسانوں کو بلی کیوں چڑھایا جائے؟ جیتے جاگتے لوگ قصائی گھاٹ پر اپنا ہی خون کیوں کریں؟ دل کا جنازہ اس قدر عجلت میں کیوں نکالا جائے؟ گھر والوں کو یہ کیوں نہ باور کرا دیا جائے کہ میرا دل اور جذبات اس قدر ارزاں نہیں کہ کسی اور کی خوشی کی خاطر ان کو بے مول بیچ دوں؟ دل کو یہ کیوں نہ سمجھایا جائے کہ اسے اس دنیا میں جینے کے لیے بھیجا گیا ہے؟ موت سے پہلے زندگی کیوں ختم کی جائے؟
آئندہ کوئی قربانی کا درس دے تو اسے ٹکا سا جواب دیجیے گا کہ یہ سعادت تم خود کما لو۔ ہم سے نہ ہو پائے گا۔ بخشو بی بلی چوہا لنڈورا ہی بھلا۔ ہمیں بھی چاہیے کہ بریانی کو دم ذرا دیر میں دے دیں اور کالم وقت اجل سے ذرا پہلے لکھ لیا کریں۔ ترجیحات کو ریفریشر کورس کی ضرورت ہے۔ یوں بھی انسانوں کی قربانی جائز نہیں۔

شیئر: