Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جج کا رانا ثنا اللہ کا کیس سننے سے انکار

انسداد منشیات عدالت میں رانا ثنا اللہ کی ضمانت کی درخواست کی سماعت جاری تھی۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے درالحکومت لاہور کی انسداد منشیات عدالت میں اس وقت صورت حال حیران کن ہو گئی جب مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر رانا ثنا اللہ کی ضمانت کی درخواست کی سماعت کرنے والے جج مسعود ارشد نے یہ کہتے ہوئے سماعت روک دی کہ ’مجھے واٹس ایپ پر ابھی ہدایت ملی ہے کہ میں کام چھوڑ دوں۔‘
کمرہ عدالت میں موجود مقامی صحافی رانا بلال کے مطابق رانا ثناء اللہ کے مقدمہ کی سماعت جج مسعود ارشد کی عدالت میں آٹھ بج کر چھ منٹ پر شروع ہوئی۔ رانا ثناء اللہ کے وکلا نے ان کی ضمانت کی درخواست پر دلائل دینا شروع کیے۔
یہ دلائل تقریباً ایک گھنٹہ جاری رہے،جب عدالت نے پراسیکیوشن کے وکیل رانا کاشف سلیم سے اپنے دلائل دینے کو کہا تو انہوں نے کمرہ عدالت میں موقف اختیار کیا کہ ’مجھے اس مقدمے سے رات کو ہی منسلک کیا گیا ہے اس لیے مجھے اس کیس کو سمجھنے کے لئے وقت چاہیے۔‘

عدالت نے کیس کی سماعت سات ستمبر تک ملتوی کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ کے جوڈیشل ریمانڈ میں مزید توسیع کردی۔ (فوٹو:اے ایف پی)

کمرہ عدالت میں موجود صحافیوں کے مطابق جج مسعود ارشد نے پراسیکیوشن کے وکیل کو ایک گھنٹے کی مہلت دیتے ہوئے کہا کہ وہ فائل دیکھ لیں جس کے بعد سماعت ایک گھنٹے کے لیے ملتوی کر دی گئی۔ دس بجے سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو جج مسعود ارشد نے بتایا کہ ان کو کام کرنے سے روک دیا گیا ہے۔
اس دوران رانا ثناء اللہ کے وکلا اور جج کے درمیان مکالمہ بھی ہوا۔ رانا ثناء اللہ کے وکیل راجہ ذوالقرنین نے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں معلوم ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے اے این ایف اپنا مقدمہ ثابت نہیں کر سکتا اس لیےحیلے بہانے کیے جا رہے ہیں، ہمیں یہ بھی پتا ہے پچھلے ایک گھنٹے میں کیا ہوا ہو گا۔‘ جس پر جج مسعود ارشد نے کہا کہ ’میں اللہ کی جواب دہ ہوں ہمیشہ اللہ کی رضا کے لیےکام کیا ہے۔ رانا ثناء اللہ یا کسی کا بھی مقدمہ ہو فیصلہ میرٹ پر ہونا تھا۔‘

 

عدالت نے مقدمے کی مزید سماعت سات ستمبر تک ملتوی کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ کے جوڈیشل ریمانڈ میں مزید توسیع کردی۔ سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ ’آج انصاف کا جنازہ نکل گیا ہے،دوران سماعت جج کو کام سے روک دیا گیا۔ آج یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ حکومت اپوزیشن کے خلاف مرضی کے ججز اور جھوٹے کیس بنا کر اپوزیشن کی آواز کو دبانا چاہتی ہے ۔ یہ حق کی آواز ہے کو نہیں دبا سکتے،نواز شریف کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔‘ 
اردو نیوز کے نامہ نگار رائے شاہنواز کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے جاری ہونے والے نوٹیفیکیشن کے مطابق نہ صرف انسداد منشیات عدالت کے جج مسعود ارشد کی خدمات واپس لی گئی ہیں بلکہ لاہور کی دو احتساب عدالتوں کے جج مشتاق الٰہی اور نعیم ارشد کی خدمات بھی واپس لے لی گئی ہیں۔ لاہور ہائیکورٹ نے ان ججز کی وفاقی حکومت کی درخواست پر تعینات کیا تھا۔
خیال رہے کہ رانا ثناء اللہ کے مقدمے کی سماعت شروع ہوتے ہی وزارت قانون نے لاہور ہائی کورٹ کو جج مسعود ارشد کو ہٹانے کا مراسلہ لکھا تھا۔
اسلام آباد میں وزارت قانون کے ترجمان کی جانب سے جاری ایک وضاحت میں کہا گیا ہے کہ ’وزارت کی جانب سے کسی بھی جج کو واٹس ایپ پر کوئی حکم نہیں بھیجا گیا۔‘

شیئر: