Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہو رہا ہوں میں کس طرح برباد

ایک حالیہ جائزے کے مطابق سندھ میں انسانی استعمال کا اسی فیصد پانی انسانی فضلے سے آلودہ ہے: فائل فوٹو دریائے راوی
ان دنوں ہم سب مل کے امیزون  کے جنگلات میں آتشزدگی کا نوحہ پڑھ رہے ہیں۔ یہ جنگل نہیں  اس کرہِ ارض  کا پھیپھڑا ہے جو  ہمیں  بیس فیصد آکسیجن فراہم کرتا ہے  اور اربوں ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتا ہے۔ دنیا  کو اس سانحے کی کتنی پرواہ ہے اس کا اندازہ جی سیون چوٹی کانفرنس سے ہو سکتا ہے۔ اس میں شامل امیر ترین ممالک نے  امیزون جنگلات  میں لگی آگ بجھانے  کے لیے چالیس ملین ڈالر عطیے کا اعلان کیا ہے۔ یعنی ایک ملٹی نیشنل کمپنی  کے تشہیری بجٹ سے بھی کم۔
مگر ہم یعنی اہلِ پاکستان جو عالمی آلودگی کے خطرے سے دوچار دس چوٹی کے ممالک میں شامل ہیں خود اپنے پانی، جنگل اور ماحول کے ساتھ کیا کر رہے ہیں؟
ہو رہا ہوں میں کس طرح برباد
دیکھنے والے ہاتھ ملتے ہیں ( جون ایلیا )
پاکستان اگرچہ رقبے کے اعتبار سے زیادہ بڑا ملک نہیں لیکن اگر آپ کے پاس طیارہ ہو تو سال کے کسی بھی ایک دن میں چار مختلف کونوں میں تین بنیادی موسموں ( گرمی، سردی، بہار)  کا نظارہ کر سکتے ہیں۔ یہاں ہمالیہ، قراقرم اور ہندو کش کے طفیل دنیا کے معدودے چند عظیم دریائی نظاموں میں سے ایک انڈس ریور سسٹم موجود ہے۔ یہ سسٹم ستائیس چھوٹے بڑے دریاؤں پر مشتمل ہے مگر ہم میں سے اکثریت بس ستلج، بیاس، چناب، جہلم، راوی، کابل اور دریائے سوات سے ہی واقف ہے۔
انڈس ریور سسٹم کا ترانوے فیصد پانی زرعی اور سات فیصد صنعتی و گھریلو استعمال میں آتا ہے۔
اور ہم اس احسان کے بدلے اس آبِ حیات کے ساتھ کیا کر رہے ہیں؟ سالانہ چار لاکھ ملین گیلن آلودہ پانی ہم اس سسٹم میں دوبارہ پھینک رہے ہیں۔ کیونکہ ہم صرف ایک فیصد آلودہ پانی  ٹریٹ کرکے دوبارہ استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس سسٹم کا سب سے بڑا دریا یعنی سندھو سب سے زیادہ  ریپ ہو رہا ہے۔
دریائے سندھ سکردو سے کیٹی بندر تک ہزاروں شہروں، قصبوں اور دیہاتوں  کو زندگی دیتا ہے اور بدلے میں ہم اسے زرعی ، صنعتی اور گھریلو خام فضلے کی شکل میں ہر سال ایک محتاظ اندازے کے مطابق پچپن ملین کیوبک میٹر موت بہ شکل آلودگی  واپس کرتے ہیں۔ پینتالیس فیصد آلودگی زرعی فضلے کی شکل میں،  تیس فیصد خام سیوریج  اور پچیس فیصد صنعتی ، کیمیاوی و روغنی فضلے کی شکل میں دریا  کے منہ پر ماری جاتی ہے۔
یوں بین الاقوامی معیارات کے مطابق دریائے سندھ کا چالیس فیصد پانی ماہی گیری ، تیراکی اور آبی زندگی کے لئے وبالِ جان ہے اور اب قدرت ہم سے پلٹ کے یوں انتقام لے رہی ہے کہ ایک حالیہ جائزے کے مطابق سندھ میں انسانی استعمال کا اسی فیصد پانی انسانی فضلے سے آلودہ ہے۔
سن ستر کے عشرے تک ڈھائی سو مربع کلومیٹر پر پھیلی میٹھے پانی کی سب سے بڑی جھیل منچھر  گویا جنتِ ارضی  تھی۔ سردیاں شروع ہوتے ہی ایک سو دو اقسام  کے مہمان سائبیریائی پرندے اتنی تعداد میں آتے تھے کہ کسی کسی دن تو جھیل بھی ان کے جھنڈ میں چھپ جاتی تھی۔ دو سو سے زائد نسلوں کی مچھلیاں یہاں رہتی تھیں۔ بیس ہزار کے لگ بھگ موہانے ( مچھیرے ) اس جھیل سے سالانہ پندرہ ہزار میٹرک ٹن مچھلی حاصل کرتے تھے۔ چار سو سے زائد ہاؤس بوٹس ( شکارے ) تھیں۔ انتیس اقسام کے آبی پودے ، گیارہ نسلوں کے درخت ، سترہ اقسام کی فصل جھیل کی ممتا سے زندگی کھینچتی تھی۔

جھیل سیف الملوک کی تصاویر دنیا بھر میں دکھا  دکھا  کر ہم سیاحوں کو پاکستان دیکھنے کی ترغیب دیتے ہیں: فوٹو اے ایف پی

ایک دن یہ ہوا کہ سندھ کے وہ شہر اور قصبے جو دریا کے دائیں طرف آباد تھے۔ ان  کا صنعتی، زرعی اور انسانی فضلہ ٹھکانے لگانے کے لیے کسی افلاطون نے تجویز دی کہ عالمی مالیاتی اداروں سے قرضہ لے کر فضلے کی نکاسی کے لئے ایک پختہ نہر تعمیر کی جائے جو دریا کو آلودگی سے بچاتے ہوئے یہ فضلہ سیدھا سمندر تک لے جائے ( گویا سمندر تو سوتیلا تھا )۔
مگر کرنا خدا کا یوں ہوا کہ یہ فضلاتی نہر سمندر تک نہ پہنچی اور بیچ میں ہی پیسے ختم ہو گئے۔ چنانچہ اس کا حل یہ تلاش کیا گیا کہ رائٹ بینک آؤٹ فال ڈرین کا رخ منچھر جھیل کی جانب موڑ دیا گیا۔
آج صورت یہ ہے کہ سیانے سائبیریائی پرندے  بھاری دل کے ساتھ اوپر سے گذر جاتے ہیں۔ انہوں نے راجھستان کی جھیلیں دریافت کر لی ہیں۔ بیس ہزار موہانے کم ہو کر چار ہزار رھ گئے ہیں کیونکہ مچھلی کی پیداوار  بھی تو پندرہ ہزار ٹن سے گھٹ کے دو سے ڈھائی ہزار ٹن رھ گئی ہے۔ یہ موہانے اب فیکٹریوں میں نوکری، ساحلِ سمندر پر ماہی گیر سیٹھوں کی چاکری کرتے ہیں یا شہروں میں بھیک مانگتے ہیں۔

پاکستان کے دریاؤں اور ساحلی پٹی میں آلودگی ایک سنجیدہ مسئلہ بنتی جا رہی ہے: فوٹو اے ایف پی

منچھر میں دو سو اقسام کی مچھلیوں میں سے چودہ  نسلیں صفحہِ ہستی سے مٹ چکی ہیں۔ چار سو ہاؤس بوٹس میں سے بمشکل پچاس  باقی بچی ہیں۔ جھیل  چونکہ زہر کا پیالہ بن چکی ہے لہٰذا جھیل کے کنارے رہنے والے میٹھا پانی خرید کے پینے اور کھانے  پکانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جلدی امراض روزمرہ کا نارمل معاملہ ہے۔
سندھ میں میٹھے پانی کی دوسری بڑی جھیل کینجھر کراچی کو پانی سپلائی کرتی ہے مگر اسے مارنے کا بھی انتظام ہو چکا ہے۔ کوٹری اور نوری آباد کے صنعتی علاقوں کا فضلہ کلری بگھار فیڈر کنال کے ذریعے جھیل میں اتارا جا رہا ہے۔ اردگرد آباد گوٹھوں کا فضلہ تو خیر آ ہی رہا ہے۔ کہنے کو کینجھر لوک گیتوں کی محبوبہ، جنگلی حیات کی سرکاری پناہ گاہ اور رامسر سائٹ کے درجے پر فائز ہے مگر اس کی عزت ایک بیسوا اور ٹکیائی جتنی بھی نہیں۔

پاکستان میں آبادی کے ایک بڑے حصے کو پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں ہے: فوٹو اے ایف پی

جھیل سیف الملوک کی تصاویر دنیا بھر میں دکھا  دکھا  کر ہم سیاحوں کو پاکستان دیکھنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ گویا یہ جھیل ہماری ٹورسٹ پوسٹر گرل ہے لیکن آپ کسی بھی موسمِ گرما میں ساڑھے گیارہ ہزار  فٹ بلندی پر واقع اس جھیل کا رخ کیجیے۔ دُکانیں  اس کے آبی گریبان تک  آ گئی ہیں۔ کنارے پر پکوڑے سموسے تلے جا رہے ہیں۔ جوس کے ڈبے، بچوں کے ڈائپرز، چپس کے پیکٹ، پلاسٹک کی بوتلیں اور شاپنگ  بیگز غرض ہر طرح کا کچرا نیلے پانی کے سینے پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کارِ خیر میں دو لاکھ سے زائد پاکستانی ہر سال حصہ لیتے ہیں۔
بک رہا ہوں جنوں میں کیا  کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

شیئر: