Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سامری جادوگر ۔ سہیل وڑائچ کا کالم

بچپن سے سامری جادوگرکے بارے میں پڑھ اور سن رکھا تھا۔ گذشتہ ہفتے پاکستان کے سمندری پڑوسی عمان جانے کا موقع ملا تو معلوم ہوا کہ سامری جادوگر کی قبر اس ملک میں ہے۔
اردو لغت بورڈ اور دائرہ معارف اسلامیہ کے مطابق سامری جادوگر حضرت موسٰی اور فرعون کے زمانے کا ایک مشہور ساحر تھا جس نے سونے کا بچھڑا بنایا جو باقاعدہ بولتا تھا، سامری کے ساحرانہ کمال کو آج تک تسلیم کیا جاتا ہے۔
طلسم ہوش ربا میں لکھا ہے کہ ’ سامنے مندر کے جو درخت لگے ہیں ان میں پھل بصورت انسان ہیں ان درختوں کا جو پتہ گرتا ہے وہ طائر بن کر اڑتا ہے اور درخت  پر بیٹھ کر نام سامری کی جاپ کرتا ہے۔‘
گویا سامری جادوگر انسانوں کو پرندے بنا کر اڑا سکتا تھا، جانوروں کو زبان عطا کر سکتا تھا اور سونے کے بچھڑے کو جاندار بنا سکتا تھا۔ اگر واقعی سامری جادوگر کو اس قدر زمانہ قدیم میں یہ کمالات حاصل تھے تو دیکھنا یہ ہو گا کہ آج کے جدید اور سائنسی دور میں جادوگری کن کمالات کو چھو چکی ہے؟

کشمیر کا انضمام دوسرا سانحہ مشرقی پاکستان ہے اور ہم بھول بھلیوں اور بیانات کی گرما گرمی کے چنگل اور سحر میں کسی معجزے کے منتظر ہیں: تصویر اے ایف پی

تضادستان میں سامری نام کا جادوگر تو کوئی نہیں مگر ساحری کے کمالات ہر طرف نظر آتے ہیں۔ انتخابات کا موسم آتا ہے تو ہر طرف جادوئی بادل چھا جاتے ہیں۔ انتخابی گھوڑے اور موسمی سیاست دان پرندے بن کر ایک درخت سے دوسرے درخت کی طرف اڑان بھرنے لگتے ہیں۔ 2018 کے الیکشن سے پہلے بھی ایسا موسم آیا تھا۔ تضادستان کے جادوگر کا کمال یہ ہے کہ وہ نہ کہیں نظر آتا ہے اور نہ کوئی اس کا نام لیتا ہے۔
 
سب کو علم ہے کہ یہ کمال کس کا ہے؟ سیاست میں یہ فیض کہاں سے آتا ہے؟ مگر جادو کا کمال یہ ہے کہ ہر طرف ہُو کا عالم چھا جاتا ہے، سب کو چپ لگ جاتی ہے سامری کے زمانے میں موسمی پرندے ’سامری ، سامری‘ کا نام لے کراس کا جاپ کرتے تھے جب کہ تضادستان کے باشندے اپنی انگلی منہ پر رکھ کر ’شش‘ یعنی خاموش رہنے کا اشارہ کرتے ہیں، گویا وقت کا جادوگر اتنا ماڈرن ہو گیا ہے کہ لوگ دل میں اس کا نام رکھتے ہیں مگر زبان پر نہیں لا سکتے۔ گویا اب جادوگر زبان کو تالا لگانے پر بھی قادر ہو گیا ہے۔
تاریخی کتب میں درج ہے کہ سامری کی قوم خفیہ طور پر گائے کی پوجا کرتی تھی مگر بظاہر دعویٰ خدا کی پر ستش کا کیا کرتی تھی، سامری کا سونے کا بچھڑا انہیں بہت بھاتا تھا۔ گویا قوم بھی سامری کے جادو کو قبول کرنے پر آمادہ اور تیار تھی کچھ یہی حال تضادستان کا ہے۔
ابھی سامری کے دیس میں ہی تھا کہ سینٹ چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہونے کی خبر آ گئی یہ بھی پتہ چلا کہ یہاں سامری نہیں بلکہ فیض ساحری کام آیا ہے۔ شو آف ہینڈ میں اپوزیشن کا نمبر پورا تھا مگر پھر ایسا فُسوں طاری ہوا کہ خفیہ بیلٹ میں پرندے اِدھر سے اُدھر اڑ گئے اور چیئرمین سینٹ غیبی امداد سے فتح یاب ہوئے۔
یہی نہیں تضادستان کے چرند پرند اور انسان و حیوان سب طلسم کے کمالات کو مانتے ہیں، پچھلے سال کے بڑے الیکشن سے پہلے ملک کی ایک خاتون طلسماتی شخصیت نے انکشاف کر دیا تھا کہ جیتنے والی جماعت 116 نشستیں لے گی اور یہ بھی کہہ دیا تھا کہ خان اعظم اگلے وزیر اعظم ہوں گے۔
افواہ تو یہ بھی ہے دو بھارتی پائلٹ بھی اندھے کر دیے گئے تھے جادو اور روحانیت نے انہیں بے بس کر دیا تھا، اسی لیے ان کے طیارے گر گئے تھے۔ سامری جادوگر کی طرح ہماری ساحری بھی درجہ کمال کو پہنچی ہوئی ہے۔
اسلام آباد کے سنگ و خشت سرگوشیاں کر رہے ہیں کہ امریکی صدر ٹرمپ جس طرح خان اعظم کے ٹرانس میں آئے وہ کوئی معمولی بات نہیں اس کے پیچھے بھی فسوں کاری تھی اور تو اور مودی کی جانب سے کشمیر کو ضم کرنے کو بھی کالے جادو کا اثر کہا جارہا ہے۔ مودی کو جادو کے تحت ہی یہ غلطی کرنے پر ورغلا یا گیا ہے اور با لآخر روحانی جادو سے کشمیر آزاد ہو گا۔

2018 کے الیکشن سے پہلے بھی ایسا موسم آیا تھا۔ تضادستان کے جادوگر کا کمال یہ ہے کہ وہ نہ کہیں نظر آتا ہے اور نہ کوئی اس کا نام لیتا ہے: تصویر اے ایف پی

سائنسی اعتبار سے سامری جادوگر ہو دیسی ساحر، دونوں کا طلسم تا دیر نہیں رہتا۔ حقائق کی دنیا میں فسوں کاری نہیں چلتی۔ سامری کا جادو بالآخر ختم ہو کر رہا اور حضرت موسٰی کا دین آگے بڑھا۔
 سیاست، مذہب اور علمی دنیا میں کرشمے اور جادو زیادہ دیر نہیں چل سکتے یہ بالآخر حقائق کی سنگلاخ چٹانوں میں پانی کے بلبلوں کی طرح اڑ جاتے ہیں۔ ایسے میں دانش مندی، بصیرت اور ویژن کام آتا ہے۔
چھومنتر سے آپ وقت کو دھوکہ دے سکتے ہیں واقعات کو نہیں۔ یہی صورت حال ہماری ہے کہ ہم جذبات، جادو اور کرشموں کے مصنوعی اور جھوٹے عکس کو اصل جان رہے ہیں۔ قرآن پاک میں ہے کہ جب سچ اور حق آتا ہے تو باطل اور جھوٹ مٹ جاتا ہے۔ ہمارے لیے سچ کافی تلخ ہے۔ کشمیر کا انضمام دوسرا سانحہ مشرقی پاکستان ہے اور ہم بھول بھلیوں اور بیانات کی گرما گرمی کے چنگل اور سحر میں کسی معجزے کے منتظر ہیں۔
کیا ایسا ممکن نہیں کہ سوچ لیں کہ ایک لمبی جدوجہد جو کرنی ہو گی۔ پاکستان پہلے سے معاشی پریشانیوں میں ہے اور اب خارجہ مسائل میں بھی گِھر گیا ہے۔ اور ایسے گھمبیر ایشوز سے جنتر منتر نہیں صرف عقل و دانش ہی نکال سکتی ہے۔ دعا کریں کہ جادو کی جگہ تضادستان میں وہ فروغ پائے۔

شیئر: