Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پی ایم آفس، ایوان صدر، سپریم کورٹ نادہندہ

آئیسکو کے نادہندگان میں سے 14 کے کنکشنز بھی کاٹے جا چکے ہیں۔ فوٹو: پی آئی ڈی
پاکستان میں بجلی کا بحران ہو یا اس کی بڑھتی قیمت، اس کی بڑی وجوہات میں سے ایک بلوں کی عدم ادائیگی کو قرار دیا جاتا ہے۔ ’اردو نیوز‘ کو دستیاب دستاویزات کے مطابق وزیراعظم آفس، سپریم کورٹ اور ایوان صدر سیکرٹریٹ بھی بجلی کے محکمے کے نادہندہ ہیں۔
پاور ڈویژن کے اعداد و شمار کے مطابق اب بھی مختلف حکومتی اداروں اور نجی صارفین کے ذمہ 877 ارب روپے واجب الادا ہیں۔ ان میں وفاقی حکومت کے کئی ادارے، چاروں صوبائی حکومتیں بشمول پاکستان کے زیرانتظام کشمیر شامل ہیں۔
اگرچہ وفاقی وزیر عمر ایوب کا دعویٰ ہے کہ پچھلے سال کی نسبت 121102 ملین ( 121.1ارب) روپے آمدنی میں اضافہ ہوا ہے۔ لائن لاسز میں ایک عشاریہ چار فیصد کمی کی وجہ سے 16000 ملین (16ارب) روپے اضافی ریونیو بھی ملا ہے۔  
بجلی چوری پر 36 ہزار ایف آئی آرز درج کر کے پانچ ہزار 318 چوروں کی گرفتاری بھی عمل میں لائی گئی ہے اورایک لاکھ پانچ ہزار 776 شکایت کا ازالہ کیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر کے مطابق پاکستان کی تاریخ کی بلند ترین 23 ہزار 49 میگاواٹ بجلی ترسیل ان کی نمایاں کامیابیاں ہیں۔
لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ اچانک سے بجلی کی پیدوار میں نمایاں کمی سے لوڈشیڈنگ کے دورانیے میں اضافہ ہونے پر شور ہوا تو گردشی قرضوں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا یعنی بجلی گھروں سے ادھار پر بجلی لے کر صارفین کو دی یہ رقم واپس نہیں ہوئی اور نتیجتاً بجلی کی پیداوار بند۔

دستاویزات کے مطابق ایون صدر بھی بجلی کے بل ادا کرنے کے حوالے سے نادہندہ ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

 ان قرضوں کی چند وجوہات میں سے ایک وجہ بلوں کی وصولی میں مشکلات بھی ہیں جس کے لیے اکثر اشتہارات کے ذریعے عوام سے بجلی کی چوری روکنے اور وقت پر بل ادا کرنے کی درخواست بھی کی جاتی ہے تاہم حکومت کے کئی ادارے یہ ذمہ داری خود وقت پر ادا نہیں کرتے۔
وزارت توانائی کے اعداد و شمار کے مطابق وفاقی حکومت کے ماتحت ادارے 9 ارب 20 کروڑ، صوبائی حکومتیں 40 ارب 70 کروڑ روپے اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت 95 ارب 90 کروڑ روپے کی نادہندہ ہے۔ سابق فاٹا کے مختلف اداروں کے ذمے 25 ارب 10 کروڑ اور بلوچستان حکومت نے 42 ارب 30 کروڑ ادا کرنے ہیں۔ کے الیکٹرک کے ذمے وفاقی حکومت کے واجبات 71 ارب 80 کروڑ ہیں۔
صرف وفاقی دارالحکومت کی شاہراہ دستور پر واقع سرکاری اداروں کے ذمے واجب الادا رقوم کا جائزہ لیا جائے تو جولائی کے بلوں میں شامل بقایا جات میں سپریم کورٹ آف پاکستان دو کروڑ، 37 لاکھ، 54 ہزار دو سو گیارہ روپے کی نادہندہ ہے۔ اس کے بعد وزارت خارجہ نے آئیسکو کے ایک کروڑ 64 لاکھ 59 ہزار تین سو گیارہ روپے ادا کرنے ہیں۔
تیسرے نمبر پر ایوان صدر سیکرٹریٹ ہے جس کے ذمہ 95 لاکھ 29 ہزار چھ سو اٹھائیس روپے واجب الادا ہیں۔ کابینہ ڈویژن بلاک کے بقایا جات بھی 74 لاکھ 13 ہزار سے تجاوز کر چکے ہیں۔

سپریم کورٹ بھی ان اداروں میں شامل ہے جن کے ذمے بجلی کے بلوں کی مد میں کروڑوں روپے واجب الادا ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

پاک سیکرٹریٹ کے بلاک سی، پی اور کیو کے علاوہ وزارت پاپولیشن ویلیفئیر کی عمارت بھی نادہندگان میں شامل ہے۔ سی بلاک کے بقایا جات 61 لاکھ 91 ہزار، پی بلاک کے 41 لاکھ 73 ہزار کیو بلاک کے 46 لاکھ 89 ہزار جبکہ وزارت پاپولیشن ویلفئیر کے ذمہ 23 لاکھ 65 ہزار سے زائد روپے واجب الادا ہیں۔
وزیر اعظم آفس بھی آئیسکو کا 5 لاکھ 58 ہزار چار سو دس روپے کا نادہندہ ہے جسے بجلی منقطع کرنے کا نوٹس جاری کیا گیا تھا تاہم اس پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔
پارلیمنٹ ہاؤس اس وقت واحد قومی ادارہ ہے جو نہ صرف اپنی بجلی کی ضروریات پوری کر رہا ہے بلکہ آئیسکو کو بجلی بیچ بھی رہا ہے جس کی وجہ سے آئیسکو پارلیمنٹ کا نادہندہ ہے تاہم پارلیمنٹ لاجز میں سی ڈی اے کے ذمے تین لاکھ 91 ہزار روپے اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پارلیمنٹری سروسز کے ذمہ چار لاکھ  49 ہزار روپے واجب ادا ہیں۔
سندھ ہاؤس جو کہ سندھ حکومت کی ملکیت ہے کے ذمے 37 لاکھ روپے سے زائد واجب الادا ہے جبکہ پنجاب ہاوس بھی پانچ  لاکھ 80 ہزار روپے کا نادہندہ ہے۔

 

سرکاری اداروں کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں نجی صارفین بھی تین سو ارب کے نادہندہ ہیں جن کے خلاف موجودہ حکومت نے اپریل میں کارروائی شروع کی۔
پاور انفارمیشن ٹیکنالوجی کمپنی (پی آئی ٹی سی) کی ویب سائٹ پر 43 ہزار 426 افرادکی فہرست جاری کی گئی ہے جو مختلف تقسیم کار کمپنیوں کے نادہندگان ہیں۔
 فراہم کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 43 ہزار میں سے 8550 کے کنکشن کاٹ دیے ہیں جبکہ 34 ہزار 876 نادہندگان فعال نادہندگان ہیں۔ ان میں کئی ایک ایسے ہیں جنھوں نے چار چار سال سے بل ادا نہیں کیے۔
نادہندگان کی سب سے بڑی تعداد کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی کے ٹیوب ویل صارفین کی ہے جو 26 ہزار سے زائد ہیں۔ سب سے کنکشن 5419 سکھر الیکٹرک سپلائی کمپنی نے کاٹے ہیں۔ جبکہ سب سے کم نجی نادہندگان آئیسکو کے ہیں جن کی تعداد 28 بنتی ہے جن میں سے 14 کے کنکشنز کاٹے جا چکے ہیں۔
سرکاری اور نجی صارفین کی جانب سے بل ادا نہ کرنے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے ماہر انرجی نوید افتخار نے کہا کہ ’اردو نیوز‘ کو بتایا کہ ’سرکاری شعبے میں عموماً بجٹ غیر حقیقی بنایا جاتا ہے اور سرکاری ادارے آئی ایم ایف یا کسی بھی دیگر ادارے کی شرائط کو سامنے رکھتے ہوئے کم بجٹ مختص کرواتے ہیں جبکہ حقیقی اخراجات زیادہ ہوتے ہیں تو سرکاری اداروں کے پاس پھر بل روکنے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں ہوتا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’کفایت شعاری کے نام پر یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ فلاں اداے نے اخراجات میں اتنی کمی ہے تو وہ ایسے اخراجات جو ملازمین کے علاوہ ہوں ان میں کمی کر دیتے ہیں۔ بعض اوقات تو اداروں کے اثاثہ جات ضائع ہو جاتے ہیں کہ ان کی دیکھ بھال پر رقم خرچ نہیں کی جاتی۔‘

 

نجی صارفین کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ ’ریکوری کے کمزور قوانین کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نجی کمپنیاں عدالتوں میں چلی جاتی ہیں اور چھوٹے ملازمین کو ساتھ ملا کر مقدمات کی پیروی بھی نہیں کرنے دیتے جس سے معاملہ سالہا سال لٹکا رہتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ اس سارے مسئلے کا ایک حل ہے کہ ’کے الیکٹرک کی نجکاری کے تجربے سے سیکھتے ہوئے مارکیٹ میں مقابلے کا رجحان پیدا کرتے ہوئے نجکاری کی جائے اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کا کوریج ایریا محدود کیا جائے۔‘
 

شیئر: