Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’میت کو بھی گھر میں جگہ نہیں ملتی‘

خواجہ سراؤں کو ان کے گھر والے تسلیم کرتے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
صوبہ خیبر پختونخوا میں گذشتہ چند برسوں سے ایک طرف اگر خواجہ سراؤں پر تشدد کے واقعات سامنے آئے ہیں تو دوسری جانب پچھلے چار سالوں کے دوران تقریبا 68 خواجہ سراؤں کو قتل بھی کیا جا چکا ہے تاہم ایک کے علاوہ تمام دائر شدہ مقدمات میں ملزمان کے خلاف دائر کردہ درخواستیں واپس لے کر مقدمات ختم کر دیے گیے ہیں۔
بیشتر خواجہ سرا بچپن میں گھر بار چھوڑ کر کسی گرو کی پناہ میں آجاتے ہیں اور پھر گرو ہی ان کی پرورش و دیکھ بھال کی ذمہ داری نبھاتے ہیں کیونکہ رشتے دار ان سے ہر قسم کا ناطہ توڑ دیتے ہیں۔
خواجہ سراؤں کے مطابق ان کا جینا مرنا گرو کے ساتھ ہی ہوتا ہے اور گھر والے ان کا منہ تک دیکھنا پسند نہیں کرتے اور زندہ تو دور کی بات، مرنے کے بعد بھی ان کی میت کو گھر میں جگہ نہیں ملتی۔ یہی وجہ ہے کہ موت کے بعد تمام تر رسومات خواجہ سرا برادری ہی ادا کرتی ہے۔
خیبر پختونخوا میں خواجہ سرا یونین کی صدر فرزانہ بتاتی ہیں کہ ’نہ تو ان کے رشتے دار ان پر تشدد کے خلاف مظاہرے میں شریک ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کا حال احوال پوچھا جاتا ہے مگر قتل ہونے کی صورت میں جیسے رشتے داروں کی لاٹری نکل آتی ہے اور وہی لوگ جو زندگی بھر پوچھتے تک نہیں، قتل ہونے کی صورت میں تھانے پہنچ جاتے ہیں۔‘

فرزانہ کہتی ہیں کہ خواجہ سراؤں کے لیے آواز اٹھانے کی وجہ سے ان کو دھمکیاں ملتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’1400 تشدد کے واقعات رونما ہو چکے ہیں 68 کے قریب خواجہ سرا قتل کیے جا چکے ہیں۔ جب ہماری کمیونٹی کا کوئی بندہ قتل کر دیا جاتا ہے تو یہ ہم ہی ہیں جو کیس دائر کرتے ہیں، عدالت میں پیروی کرتے ہیں اور یہ ہم ہی ہیں جن کو دھمکیاں ملتی ہیں، جان سے مار دینے کی دھمکیاں۔‘
فرزانہ کے مطابق وہ تھانوں میں قاتل کے خلاف کیس دائر کرتے ہیں اور عدالت میں بھی کیس خواجہ سرا ہی چلاتے ہیں مگر قاتلوں کو سزا دینے کے ان کے سارے خواب تب ٹوٹ جاتے ہیں جب مقتول کے رشتہ دار تھانے پہنچ کر قاتلوں سے رابطہ شروع کر دیتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’نہ وہ کیس دائر کرتے ہیں، نہ عدالت آتے ہیں مگر تھانے جا کر قاتلوں سے رابطہ کر کے اور مقتول کے سر کی قیمت وصول کر کے کیس خارج کر دیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی بھی مقتول کو سزا نہیں ملی بس ایک ہی بندہ جیل جا چکا ہے۔‘ 
فرزانہ کا کہنا ہے کہ قاتل چھوٹتے ہی اگلے روز پستول سمیت ان کے گھروں کے سامنے گھومتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں ’تمہارے کیا لگتے تھے جو ہمارے خلاف پرچہ درج کیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ میرے گھر پر باہر سے ہمیشہ تالہ لگا رہتا ہے تاکہ کسی کو پتہ نہ چلے کہ میں گھر پر ہوں۔‘
اردو نیوز نے جب پشاور پولیس سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ پولیس اور خواجہ سراؤں کے درمیان مسلسل رابطے اور کسی بھی قسم کے مسائل کے حل کی خاطر ایک کوارڈینیشن کمیٹی بنائی گئی ہے جس کی سربراہی پولیس افسر کر رہے ہیں۔
ایس ایس پی آپریشن ظہور بابر آفریدی کے مطابق ماضی کی نسبت اب حالات بہتر ہو رہے ہیں کیونکہ اب خواجہ سراؤں کو مکمل سکیورٹی دی جا رہی ہے اور کسی بھی ہنگامی صورتحال میں کوارڈینیشن کمیٹی حرکت میں آتی ہے۔

اکثر خواجہ سراؤں کو ان کے گھر والے تسلیم نہیں کرتے (فوٹو:اے ایف پی)

اس حوالے سے جب کوارڈینیشن کمیٹی کے سربراہ اے ایس پی فقیر آباد محمد شعیب سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اکثر اوقات یہ دیکھا گیا ہے کہ مقتول خواجہ سرا کے لواحقین پیسے لے کر ایف آئی آر ختم کروا دیتے ہیں تاہم عدالتوں میں کیس خارج ہونے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ کیس کی پیروی نہیں ہوتی اور اسی وجہ سے اکثر کیسز خارج ہو جاتے ہیں۔
خواتین اور خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم بلیو وینز کے مطابق ایک ایسا بھی وقت تھا جب خواجہ سرا شادی بیاہ کی تقاریب میں مار کھاتے تھے مگر خاموش رہتے اور کسی ساتھی کے قتل کی صورت میں آواز اٹھانا تو اپنی موت کو دعوت دینے کے برابر تھا تاہم کچھ عرصے سے خواجہ سرا اپنے حق کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں۔
بلیو وینز تنظیم کے سربراہ قمر نسیم کے مطابق تقریباً تمام کیسز میں خواجہ سراؤں کے لواحقین تیسرے فریق کو لاکر معاملات طے کر لیتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’قتل کے ملزمان اسی موقعے کا انتظار کرتے ہیں کہ کب کوئی آئے، پیسوں پر بات بنے اور کیس خارج ہو جائے۔‘

گذشتہ کچھ عرصے سے خواجہ سراں وقتاً فوقتاً اپنے حقوق کے لیے احتجاج کرتے آئے ہیں

قمر نسیم کے مطابق  خواجہ سرا اکثر جان کو لاحق خطرات کی وجہ سے عدالت نہیں آتے جس کی وجہ سے کیس کمزور پڑ جاتا ہے۔
خواجہ سرا فرزانہ کا کہنا ہے کہ ’68 میں سے صرف ایک کیس ایسا ہے کہ جس میں قاتل کو جیل ہوئی ہے تاہم اگر مقتول خواجہ سراؤں کے والدین پیسے نہ لیتے تو اب تک تمام 68 کیسز کا فیصلہ ہو چکا ہوتا اور کسی کی جرات نہ ہوتی کہ ہم جیسی مظلوم کمیونٹی کو بری نظر سے دیکھے۔‘
اردو نیوز نے کوشش کی کہ اس بات کا پتا لگایا جا سکے کہ آخر والدین یا مقتول خواجہ سراؤں کے رشتے دار کیس کی پیروی کیوں نہیں کرتے اور قاتلوں کو کیسے اتنی آسانی سے جانے دیتے ہیں، تاہم اس حوالے سے کوئی بھی متعلقہ فرد بات کرنے کو تیار نہیں ہوا۔
صوبے میں خواجہ سراؤں کو علاج کی بہتر سہولیات فراہم کرنے کے لیے محکمہ صحت کی جانب سے میڈیکل ٹیچنگ ہسپتالوں میں خصوصی وارڈز مختص کیے گئے ہیں۔ اس حوالے سے خواجہ سراؤں کے لیے اے کٹیگری والوں ہسپتالوں میں پانچ، بی کٹیگری میں چار جبکہ سی کٹیگری والے ہسپتالوں میں تین بستروں پر مشتمل وارڈز محتص کرنے کے  ہدایات کی گئی ہے۔

شیئر: