Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

 ’بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے کیخلاف خاموشی نہیں‘

کراچی میں گزشتہ روز 'سٹاپ چائلڈ ایبیوز' کے عنوان سے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس کا مقصد بچوں پر جنسی تشدد کے مسئلے سے متعلق آگاہی، روک تھام اور اسے حل کرنے کے عزم کے لیے آواز اٹھانا تھا۔
کانفرنس میں جس کا اہتمام کیٹ واک کیئرکی جانب سے کیا گیا، ملک کی جانی پہچانی شخصیات نے شرکت کی اور اس مسئلے کے حوالے سے تجاویز بھی پیش کیں۔
نامور اداکار اور "اڈاری" ڈرامے میں ہوس کا شکارایک مرد کا کرادر ادا کرنے والے احسن خان نے بتایا کہ شروع میں اس کردار کے لیے ہاں کرتے ہوئے وہ ہچکچاہٹ کا شکار تھے مگر ان کے اہل خانہ ہی انہیں اس پر راضی کیا اور آج وہ سمجھتے ہیں کہ یہ کردر ادا کرکے انہوں نے اس مسئلے کی طرف توجہ دلانے میں اپنا کچھ حصہ ڈالا ہے۔
 ان کا کہنا تھا کہ نیشنل میڈیا پر اس بارے میں مزید بات کرنے کی ضرورت ہے۔ احسن خان نے اس بات پر زور دیا کہ ’ہمیں اپنے بچوں کو آگاہی دینی ہوگی کہ اگر ان کے ساتھ کوئی غلط کرتا ہے تو اس کے بارے میں والدین یا بڑوں کو ضرور بتائیں کیونکہ خاموشی ہی مجرم کی سب سے بڑی ڈھال ہے جس سے نہ صرف اس کا حوصلہ بڑھتا ہے بلکہ بچے کی باقی ساری زندگی پر اس واقعے کا اثر رہتا ہے‘۔

'سٹاپ چائلڈ ایبیوز' کے عنوان سے کانفرنس کا  مقصد بچوں پر جنسی تشدد کے مسئلے پر آواز اٹھانا تھا۔

اداکار اور پروڈیوسر شہریار منور نے مسئلے کی روک تھام پر زور دیا تاکہ اس قسم کے واقعات کو رونما ہونے سے روکا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں شروع ہی سے اپنے بچوں کو وہ تعلیم بھی دینی چاہیے جس سے وہ اپنا دفاع کر سکیں۔
 اگر وہ ہم سے اس بارے میں سوالات کرتے ہیں تو ان کو تسلی بخش جواب دینا بھی ضروری ہیں۔ شہریار کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے بچوں کو اتنی آگاہی ضرور دینی ہوگی کہ باہرنکل کر وہ اور اچھی اور بری نگاہ یا دوسرے کے چھونے کے انداز میں فرق محسوس کرسکیں۔
معروف اداکار اور سماجی کارکن عدنان ملک نے کہاکہ جنسی تشدد اور زیادتی کی روک تھام کے لیے گھر سے ہی اقدامات لینے چا ہئیں۔ انہوں نے اس بات بر بھی زور دیا کہ یہ ذمہ داری صرف ماں ہی کونہیں بلکہ باپ کو بھی ادا کرنی چاہیے اور نہ صرف لڑکیوں بلکہ لڑکوں کو بھی اس بارے میں مکمل آگاہی دینی ہوگی جبکہ سکولوں میں بھی بچوں کو انسان کی طبعی تبدیلیوں کے بارے میں محتاط طریقے سے سمجھانے کی ضرورت ہے۔
اداکارہ اور ٹیلی ویژن میزبان ژالے سرحدی نے کہا کی وہ اس مسئلے کے بارے میں بہت زیادہ حساس ہیں کیونکہ ان کے اپنے خاندان میں ایسا ایک واقعہ ہو چکا ہے جبکہ کالج کے زمانے میں ان کی ایک ہم جماعت نے ایسے ہی ایک واقعے کے بعد خود کشی کرلی تھی۔ انہوں نے کہا کہ انہیں پچپن ہی سے اس بات کا ادراک ہے کہ زیادتی کرنے والے کے خلاف خاموشی اختیار نہیں کرنی چاہیے۔
 ژالے نے مزید کہا کہ ہمیں لڑکی یا لڑکے کی تفریق کیے بغیر انہیں بچپن ہی سے بتانا چاہیے کہ انہیں اپنے سے کمزور پر ہاتھ نہیں اٹھانا۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اسکولوں میں اس موضوع کے حوالے سے بچوں کی خصوصی تربیت اور چائڈ سائیکلوجسٹ کی موجودگی ضروری ہے۔
معروف ٹیلی و یژن ہدایت کار اینجلین ملک کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے بچوں کو سامنے والے کو منع کرنے کی ہمت دینی چاہیے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس مسئلے پر ملک کے مختلف پلیٹ فارمز کو ایک جگہ جمع ہوکر آواز اٹھانا ہوگی تاکہ یہ پیغام دور تک اور ٹھوس طریقے سے پہنچایا جاسکے۔
انسانی حقوق کے وکیل بیرسٹر حسن نیازی کا کہنا تھا کہ ہمیں جنسی تشدد اور زیادتی کے مجرموں کو سزا دلانے کے لیے پورا نظام تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جو ریاست کی مداخت کے بغیر ممکن نہیں۔ حسن نیازی نے مزید کہا کہ ہر شہر میں بچوں پر ہونے والی زیاتیوں اور ان کے مسائل کے لیے خصوصی عدالتیں اور جج مقررہونے چاہئیں۔ 
فریحہ الطاف نے اس بات کا عزم کیا کہ وہ اس طرح کی کانفرنسوں اور سوشل میڈیا کے ذریعے حکومت اور پارلیمنٹ میں بیٹھے ارکان پر دباو¿ ڈالیںگی کہ وہ اس مسئلے کے بارے سنجیدہ رویہ اختیار کریں اور ایسے قانون وضع کریں جو اس مسئلے کو ایک موثر اور پائیدار حل کی جانب لے جائیں۔ 

 

شیئر: