Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیاست باٹ رکھے سیاستدانوں پر نظر

ٹوئٹر ایک سنجیدہ پلیٹ فارم ہے، اور بہت ضروری کے کہ اہم سیاسی اور سماجی شخصیات اپنے قول و حرکات کے جواب دہ بھی ہوں: شہریار
کچھ دن قبل خبر مشہور ہوئی کے وزیر اعظم عمران خان اور صحافی حامد میر کی سالوں پرانی دوستی ختم ہوگئی، اور دلیل پیش ہوئی کہ عمران خان نے حامد میر کو ٹویٹر پہ ’اَن فالو‘ کردیا ہے۔ پر لوگوں کو اس بات  کا پتا کیسے چلا؟
تو اس کا جواب ہے، سیاست باٹ۔
سیاست باٹ نام ہے ایک ایسے ٹوئٹر اکاؤنٹ کا جو سیاست دانوں اور اہم شخصیات کی جانب سے ٹوئٹر پر کی گئی تمام حرکات و سکنات پہ نہ صرف نظر رکھتا ہے، بلکہ ایسی کوئی بھی ایکٹیوٹی فوراً رپورٹ کرتا ہے۔ اس کے ذریعے اب سیاست دان کسی فرد، ادارے، تنظیم یا تحریک کے لیے اپنی حمایت کو لوگوں کی نظر سے پوشیدہ نہیں رکھ سکتے۔
اس ٹوئٹر ہینڈل کی تخلیق کرنے والے شہریار پوپلزئی نے اردو نیوز کو بتایا کہ سیاست باٹ ایک ٹریکنگ اکاؤنٹ ہے جس کا بنیادی مقصد سوشل میڈیا پہ جواب دہی کا تصور اجاگر کرنا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’سوشل میڈیا بالخصوص ٹوئٹر ایک سنجیدہ پلیٹ فارم ہے، اور بہت ضروری کے کہ اہم سیاسی اور سماجی شخصیات اپنے قول و حرکات کے جواب دہ بھی ہوں۔
شہریار پوپلزئی کا کہنا تھا کہ سیاست دان عوامی نمائندے ہوتے ہیں لہذا عوام کا حق بنتا ہے جاننے کا کہ جن سیاست دانوں کی وہ حمایت کرتے ہیں وہ کن لوگوں کو پسند کرتے ہیں، کیسی باتوں کی طرف داری کرتے ہیں کسی بھی مسئلے پہ ان نمائندوں کا موقف کیا ہوتا ہے۔

شہریار کے مطابق سیاست باٹ ایک ٹریکنگ اکاؤنٹ ہے جس کا بنیادی مقصد سوشل میڈیا پہ جواب دہی کا تصور اجاگر کرنا ہے۔

شہریار نے بتایا کہ ’ہم جو معلومات لوگوں کو دیتے ہیں وہ سب پبلک انفارمیشن ہوتی ہے بس ہم اسے سب کے سامنے لے آتے ہیں وہ بھی فوراً سے۔‘
انہوں نے واضح کیا کہ سیاست باٹ کسی کی ذاتی پرایئویٹ ٹویٹ کی معلومات فراہم نہیں کرتا نہ ہی ان اکاؤنٹس کی کھوج لگاتا ہے جو رسٹریکٹ یا بلاکڈ ہوں۔
پاکستان میں سیاست دانوں کی ٹوئٹر پہ سرگرمیاں اس سے پہلے بھی خبروں کی زینت بن چکی ہیں، سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے گذشتہ برس تحریک لبیک کے سربراہ خادم رضوی کی ایک ٹویٹ کو ’لائیک‘ کیا تھا جس پہ انہیں خاصی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس وقت خادم رضوی ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث تھے اور حکومت نے بالآخر انہیں گرفتار بھی کرلیا تھا۔
شہریار کو اس ٹریکنگ ہینڈل کا خیال امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے الیکشن میں ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ سے آیا جو ٹرمپ کے خاندان کے افراد کی ٹویٹس کو عوام کے سامنے لاتا ہے، کچھ عرصہ قبل ہندوستان میں بھی ایسا ہی ایک اکاؤنٹ بنا۔
شہریار پوپلزئی کے مطابق ’ہندوستان میں یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے، وہاں خاصے سیاست دان شدت پسندوں کے حمایتی ہیں، ایسی صورت میں عوام کے لیے یہ معلومات نہایت اہم ہوتی ہیں کہ وہ یہ جان سکیں کہ جس رہنما کی وہ طرف داری کر رہے ہیں وہ کیسا ہے اور کن گروپس کا حمایتی ہے۔‘

اس سب کو دیکھ کہ شہریار نے اپنی ٹیم شکاری کے ساتھ مل کے اس ٹریکنگ اکاؤنٹ پہ کام شروع کیا، اور لگ بھگ دو ماہ کے عرصے میں اسے لانچ کردیا۔ 
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان میں عوام سیاست دانوں کو ٹوئٹر پہ فالو کرتی ہے لیکن کسی قسم کی جواب دہی نہ ہونے کے باعث سیاسی رہنما وقت کی نوعیت کے حساب سے موقف بدل لیتے ہیں، ایسے میں لوگوں کو یہ جاننا ضروری ہے کہ ان کا لیڈر پہلے کیا سوچ رکھتا تھا۔ لہذا اگر وہ سیاستدان ماضی کی حمایت چھپانے کے لیے ٹویٹس کو ’ناپسند‘ یا کسی کو اَن فالو بھی کرے گا تو لوگوں کو پتہ چل جائے گا۔‘
شہریار نے بتایا کہ فی الحال سیاست باٹ صرف اہم سیاست دانوں کے ٹوئٹر اکائونٹس ٹریک کر رہا ہے، انہوں نے ایک لسٹ اس کو فیڈ کردی ہے اور یہ ان تمام اکاؤنٹس سے متعلق کسی بھی لائیک، فالو یا ان فالو کی سرگرمی کی رپورٹ ایک ٹویٹ کے ذریعے ریل ٹائم میں فراہم کر دیتا ہے۔ 
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ  ’یہ ایک پیشن پراجیکٹ ہے، ہم شوق سے کر رہے ہیں، اس کے پیچھے کسی قسم کی ’فنڈنگ‘ کا کوئی عمل دخل نہیں۔‘

شہریار، جو ماضی میں خود صحافت سے وابستہ رہ چکے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اس پراجیکٹ کا اصل مقصد رپورٹرز کو معلومات فراہم کرنا ہے جس سے مستفید ہو کر وہ ایک نئے زاوئیے پہ رپورٹنگ کر سکتے ہیں۔ ’میں خود تو اب رپورٹنگ نہیں کرتا لیکن خواہش ہے کہ دیگر رپورٹرز اس ڈیٹا کو استعمال میں لائیں۔‘
ڈیجیٹل میڈیا پہ رپورٹ کرنے والی صحافی رمشا جہانگیر کا کہنا ہے کہ ایسے پراجیکٹ خاصے مستفید ثابت ہو سکتے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ صحافی اس کو سمجھیں اور ڈیٹا کا تجزیہ کر کے منفرد رپورٹنگ کریں۔
شہریار نے بتایا کہ گذشتہ دنوں حامد میر کو عمران خان نے ان فالو کیا، اس کے علاوہ عوامی نیشنل پارٹی کے ایک رہنما کی ٹوئٹر سرگرمیاں بھی زیرِ بحث رہیں۔ مستقل میں ان کا ارادہ ہے کہ وہ سیاست دانوں کی ٹوئٹر سرگرمیوں کے حوالے سے ہفتہ وار رپورٹ بھی جاری کریں جس میں یہ واضح ہو کہ کونسا رہنما کس تحریک کی حمایت کر رہا ہے اور کس موقف کی تائید کر رہا ہے۔

شیئر: