Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’باہر سے لائے گئے ملزمان کے لیے سزائے موت کا خاتمہ‘

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی داخلہ آرڈیننس کا جائزہ لے گی، تصویر: اے ایف پی
بیرون ملک مفرور ملزمان کی حوالگی پر انہیں پاکستان میں سزائے موت نہیں دی جا سکے گی۔ اس حوالے سے وفاقی حکومت نے تعزیرات پاکستان میں ترمیم کا آرڈیننس جاری کیا ہے جس کے تحت مختلف مقدمات میں مطلوب ملزمان کے خلاف شواہد کو بھی فوجداری مقدمات میں سزائے موت دینے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکے گا۔
یہ صدارتی آرڈیننس جمعے کو قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا اور ایوان زیریں کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ اس کا جائزہ لے گی تاہم یہ آرڈیننس فوری طور پر نافذ العمل ہو گیا ہے۔
تعزیرات پاکستان میں ترمیم کے لیے تیار کیے گئے مسودے کے مطابق کسی بھی مفرور ملزم کو پاکستان لانے کی صورت میں اسے سزائے موت نہیں دے جا سکے گی اور ایسے کسی ملزم کے خلاف بیرون ملک سے حاصل کیے جانے والے شواہد کی روشنی میں بھی سزائے موت کا اطلاق نہیں ہو گا تاہم ایسے ملزمان کو سزائے موت کے علاوہ دیگر سزائیں دی جا سکیں گی۔
یاد رہے کہ رواں برس جون میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے دورہ برطانیہ کے دوران برطانوی وزیر خارجہ نے ان کے ساتھ مشترکہ نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ برطانیہ سیاسی مقاصد کے تحت ملزمان کی حوالگی کے کسی معاہدے پر دستخط نہیں کرے گا۔

پاکستان اور برطانیہ کے درمیان ملزمان کی حوالگی کا معاہدہ موجود ہے، تصویر: دفتر خارجہ

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان کسی دوسرے ملک سے کیے گئے معاہدے کا غلط استعمال نہیں کرے گا اور یہ کہ حکومت  تعزیرات پاکستان میں ترمیم لانے کا بھی سوچ رہی ہے۔
تعزیرات پاکستان ترمیمی آرڈیننس کا مقصد دہشت گردی اور منظم بین الاقوامی جرائم کے خلاف نبرد آزما ہونا بتایا جا رہا ہے۔ وزارت داخلہ کی جانب سے تیار کیے گئے مسودے کے مطابق ایسے جرائم جن کی بنیاد بیرونی ممالک کے ساتھ جڑی ہوتی ہے ان میں دیگر ممالک شواہد کے لیے درخواستیں محض اس بنیاد پر قبول نہیں کرتے کہ درکار معلومات ملزمان کے خلاف سزائے موت کے لیے فوجداری مقدمے میں استعمال ہو سکتی ہیں۔
وزارت داخلہ کے مطابق پاکستان کو سنگین جرائم میں ملوث افراد کی حوالگی کی مخالفت کا سامنا صرف اس لیے کیا جاتا ہے کہ اگر وہ ملوث پائے گئے تو ملزمان کو سزائے موت دے دی جائے گی۔
پاکستان کو سزائے موت کے خاتمے کے قانون سے متعلق مختلف ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے بھی دباؤ کا سامنا رہا ہے۔

پاکستان نے اسحاق ڈار کی واپسی کے لیے برطانیہ کو درخواست دے رکھی ہے، تصویر: اے ایف پی

تعزیرات پاکستان ترمیمی آرڈیننس کے مسودے میں ایک اہم پہلو ملک میں سزائے موت کے قانون کے خاتمے کے حوالے سے بھی ہے۔ مسودے کے مطابق ‘سزائے موت کے خاتمے کا ایک مذہبی پہلو بھی ہے۔ حدود کے مقدمات میں اسے ختم نہیں کیا جاسکتا لیکن تعزیر کے مقدمات میں ایسے کوئی پابندی شامل نہیں۔‘
پاکستان اور برطانیہ کے درمیان مختلف مقدمات میں مطلوب ملزمان کی حوالگی اور شواہد کے حصول کے لیے گذشتہ برس ایک معاہدہ طے پایا تھا، جس کے تحت پاکستان مختلف سنگین مقدمات میں ملوث افراد کی حوالگی یا شواہد کے حصول کی درخواست دے سکتا ہے ۔
واضح رہے کہ پاکستان میں سابق وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور بانی متحدہ قومی موومنٹ متعدد مقدمات میں نامزد ملزمان ہیں اور اس حوالے سے پاکستان برطانیہ سے ان ملزمان کی واپسی کے لیے بھی درخواستیں دے چکا ہے جن پر تاحال عمل درآمد نہیں ہوا۔
پاکستان میں 2008 میں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے سزائے موت پر عمل درآمد روک دیا تھا تاہم 2014 میں سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور کے بعد یہ پابندی اٹھا لی گئی تھی۔ جسٹس پروجیکٹ پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق 2014 سے اب تک  پانچ سو افراد کو موت کی سزا سنائی گئی ہے۔

شیئر: