Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پچاس کروڑ کرپشن پر سی کلاس: نشانہ کون؟

نیب مقدمات کا سامنا کر رہے کئی سیاستدانوں نئے قانون کی زد میں آسکتے ہیں۔
پاکستان میں وفاقی حکومت نے 50 کروڑ روپے سے زائد مالیت کے کرپشن کیسز میں ملوث افراد کو جیل میں عام قیدیوں کی طرح رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ 
وزیر قانون فروغ نسیم نے حکومت کی جانب سے مختلف قوانین میں ترامیم کے حوالے سے ہفتے کو بتایا کہ نیب قوانین میں ایسی ترمیم لا رہے ہیں جس سے 50 کروڑ روپے سے زائد  کی کرپشن کے ملزم کو جیل میں ’سی کلاس‘ ملے گی۔ اس قانون کے تحت سابق افسران یا سیاستدان سمیت سب کو عام قیدیوں کی طرح ہی رکھا جائے گا۔
پاکستان میں اس وقت بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین اور سیاست دان نیب مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ایسے میں اگر یہ قانون منظور ہو جاتا ہے تو متعدد سیاسی رہنما جو کہ اس وقت نیب مقدمات کے تحت جیل میں قید ہیں انہیں سی کلاس پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا۔
مجوزہ ترمیم کی زد میں کون کون آسکتا ہے؟
سابق صدر آصف علی زرداری اس وقت میگا منی لانڈرنگ اور جعلی اکاؤنٹس کیس میں نیب کی زیر حراست ہیں۔ نیب کی جانب سے عدالت میں جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق آصف زرداری پر ساڑھے چار ارب روپے کی جعلی ٹرانزیکشنز کا الزام ہے۔ 

نواز شریف کو طبی بنیادوں پر جیل میں ’اے کلاس‘ دی گئی ہے، تصویر: اے ایف پی

واضح رہے کہ آصف علی زرداری نے جیل میں اے سی کی سہولت کے لیے احتساب عدالت میں درخواست دائر کر رکھی تھی جو میڈیکل افسر کی تجویز کے ساتھ مشروط کر دی گئی ہے۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف اس وقت کوٹ لکھپت جیل میں العزیزیہ ریفرنس میں سات سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ نواز شریف کو جیل میں اے سی  کی سہولت دی گئی ہے تاہم سابق وزیراعظم کو یہ سہولت طبی بنیادوں پر دی گئی ہے۔
ادھر مریم نواز بھی چوہدری شوگر ملز کیس میں نیب کی زیر حراست ہیں۔ مریم نواز مبینہ طور پر چوہدری شوگز ملز میں شیئر ہولڈر ہیں اور نیب کی جانب سے مریم نواز، سابق وزیراعظم نواز شریف سمیت دیگر ملزمان پر دو ارب روپے سے زائد رقم کی منی لانڈرنگ کا الزام ہے۔
اس کیس میں حسن نواز اور حسین نواز سمیت نواز شریف کے بھائی عباس شریف کے بیٹے مرکزی ملزمان ہیں۔

آصف زرداری پر ساڑھے چار ارب روپے کی جعلی ٹرانزیکشن کا الزام ہے، تصویر: اے ایف پی

اسی طرح شہباز شریف کو پنجاب میں آشیانہ ہاؤسنگ سکیم اور مختلف نجی کمپنیوں کو پیپرا (پبلک پروکیورمنٹ ریگولیرٹری اتھارٹی) کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر قانونی طریقوں سے ٹھیکے دینے کا الزام ہے۔ شہباز شریف پر صرف آشیانہ ہاؤسنگ سکیم میں بدعنوانی کے تحت قومی خزانے کو 70 کروڑ روپے سے زائد نقصان پہنچانے کا الزام ہے۔
واضح رہے کہ سابق وزیراعلی شہباز شریف نے اس کیس میں عدالت سے ضمانت حاصل کر رکھی ہے۔
سابق وزیراعلی کے صاحبزادے حمزہ شہباز بھی آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے الزام میں کوٹ لکھپت جیل میں قید ہیں۔
تحریک انصاف کے رہنما اور سابق صوبائی وزیر عبد العلیم خان پر بھی آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کا الزام ہے۔ عبد العلیم خان پر مبینہ طور پر پارک ویو ہاؤسنگ سوسائٹی کے بطور سیکرٹری اور رکن صوبائی اسمبلی اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے اور پاکستان اور بیرون ملک آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا الزام ہے۔

 

عبدالعلیم خان پر لاہور اور مضافات میں 900 کنال اراضی خریدنے اور اس حوالے سے  موجود وسائل ثابت نہ کر سکنے کا بھی الزام ہے۔ اس کے علاوہ سابق صوبائی وزیر کو بیرون ملک آف شور کمپنیاں بنانے کے حوالے سے بھی تحقیقات کا سامنا ہے۔
واضح رہے کہ عبد العلیم خان نے آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں ضمانت حاصل کر رکھی ہے۔
اس قانون کا اطلاق جیل میں طبی بنیادوں پر سہولیات لینے والوں پر بھی ہو گا؟
نیب قوانین میں ترمیم کے ذریعے 50 کروڑ روپے سے زائد رقم کی کرپشن میں ملوث افراد کو ایک عام قیدی کی طرح رکھا جائے گا لیکن کیا ایسے میں طبی بنیادوں پر بھی کسی قیدی کو جیل میں سہولیات نہیں دی جائیں گی؟
اس حوالے سے سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل اکرام چوہدری نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس ترمیم میں 50 کروڑ روپے کی ایک حد طے تو کی جا رہی ہے لیکن طبی بنیادوں پر کسی قیدی کو سہولیات دینے سے نہیں روکا جا سکتا۔

مریم نواز دو ارب روپے کی منی لانڈرنگ کیس میں شریک ملزمہ ہیں، تصویر: اے ایف پی

انہوں نے کہا کہ کسی بھی قیدی کی طبی بنیادوں پر سہولت دینے کی درخواست پر فیصلہ عدالت کا اختیار ہے۔ ’طبی بنیادوں پر کسی قیدی کو اے سی، مخصوص خوراک یا کسی نگران کی ضرورت ہے تو ایسی سہولیات عدالت کے حکم پر دی جائیں گی۔‘
اکرام چوہدری نے مزید کہا کہ جیل میں اے، بی اور سی کلاس کا استعمال عام طور سیاسی قیدیوں کے حوالے سے ہی ہوتا ہے، کسی اور جرم میں ملوث افراد کے حوالے سے جیل میں ان سہولیات کا استعمال کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔
جیل میں سی کلاس کیٹگری میں کون سی سہولیات دی جاتی ہیں؟
جیل ایکٹ 1978ء کے تحت پاکستان میں قیدیوں کے لیے تین درجے تشکیل دیے گئے ہیں جنھیں اے، بی اور سی کہا جاتا ہے۔

علیم خان پر ناجائز آمدنی سے 900 کنال اراضی خریدنے کا الزام ہے، تصویر: سوشل میڈیا

سی کلاس میں عام قیدیوں کی طرح رکھا جاتا ہے اور ان کو کوئی خصوصی سہولیات نہیں دی جاتیں ۔ واضح رہے کہ اے اور بی کلاس کے قیدیوں کو باورچی اور مشقتی کے طور پر سی کلاس کا قیدی ہی دیا جاتا ہے۔
جیل مینوئل کے مطابق جنہیں اے کلاس دی جاتی ہے انھیں رہائش کے لیے دو کمروں پر محیط ایک الگ بیرک دی جاتی ہے جس کے ایک کمرے کا سائز 9 ضرب 12 فٹ ہوتا ہے۔
اس کلاس کے قیدی کے لیے بیڈ، اے سی، فریج ، ٹی وی اور فرنیچر کے علاوہ الگ باورچی خانے کی سہولت بھی موجود ہوتی ہے۔

اے کلاس کے قیدی کو اپنی پسند کا کھانا پکانے کی بھی اجازت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اے کلاس میں رہنے والے قیدی کو دو مشقتی بھی دیے جاتے ہیں۔

جن قیدیوں کو بی کلاس دی جاتی ہے ان کو ایک الگ سے کمرہ اور ایک مشقتی دیا جاتا ہے تاہم اگر جیل سپرنٹنڈنٹ چاہے تو مشقتیوں کی تعداد ایک سے بڑھا کر دو بھی کر سکتا ہے۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز پاک‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: