Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’کھربوں روپے کی مالی بے ضابطگیاں‘

ہر وزارت 6 ماہ بعد انٹرنل آڈٹ کر کے رپورٹ آڈیٹر جنرل کو بھجواتی ہے۔ تصویر: اے ایف پی
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی مالی سال 2018-2017 کی آڈٹ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ وفاقی وزارتوں اور اداروں میں کمزور انٹرنل کنٹرول اور ناقص مالی انتظامات کے باعث 29 ہزار ارب روپے کی مالی بے ضابطگیاں ہوئی ہیں۔
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی جانب سے 40 وزارتوں اور اداروں کی مالی سال 2018-2017 کی آڈٹ رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کر دی گئی ہے جس میں کھربوں روپے کی مالی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔
آڈٹ رپورٹ میں اربوں روپے کے فراڈ، چوری اور کرپشن کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ان نشاندہیوں کی بنیاد پر وصولیوں کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے۔
 رپورٹ میں وفاقی وزارتوں میں انٹرنل آڈٹ کنٹرول کی کمزوری اور کمزور مالی انتظامات کے باعث 29 ہزار ارب روپے سے زائد کے آڈٹ اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔
ایسا پہلی بار نہیں ہوا بلکہ سالہا سال سے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاسوں میں کم و بیش ہر آڈٹ اعتراض پر بحث کے دوران وزارتوں کو یہ ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ اپنا اندرونی آڈٹ نظام اور مالی نظم و نسق بہتر بنائیں تاکہ کم سے کم آڈٹ اعتراضات بنیں۔

وفاقی وزارتوں اور اداروں کی آڈٹ رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کی گئی ہے، تصویر: اے ایف پی

آڈٹ حکام کے مطابق انٹرنل آڈٹ نظام کو بہتر بنانےکی بار بار کی سفارشات اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ہدایات کے باوجود بہتری نہیں آ رہی۔
پاکستان کے سرکاری نظام کے تحت وزارتوں کو استعمال کے لیے جو سالانہ بجٹ دیا جاتا ہے آڈیٹر جنرل آف پاکستان ان حسابات کا آڈٹ کر کے اپنی رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کرتا ہے۔
پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی آڈیٹر جنرل کی طرف سے اٹھائے گئے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیتی ہے۔ جہاں آڈیٹر جنرل کا محکمہ اٹھائے گئے اعتراضات پیش کرتا ہے اور متعلقہ وزارت یا ادارے کے پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر اس حوالے سے جواب دیتے ہیں۔ یہ اعتراضات قواعد و ضوابط کے برعکس رقم خرچ کرنے پر بنائے جاتے ہیں۔
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے ترجمان محفوظ بھٹی نے ’اردو نیوز‘ سے گفتگو میں کہا کہ ’اگرچہ ان مالی بے ضابطگیوں کا سالانہ موازنہ کرنا ممکن نہیں کیونکہ ہر سال آڈٹ اعتراضات کی نوعیت مختلف ہوتی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بہتری نہیں آئی۔‘

 رپورٹ میں 40 وزارتوں اور اداروں میں بے ضابطگیوں کہ نشاندہی ہوئی ہے، تصویر: وکی پیڈیا

انھوں نے کہا کہ اگرچہ بے ضابطگی کرپشن نہیں ہوتی لیکن یہ کرپشن کو جنم ضرور دے سکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ آڈٹ اعتراضات میں کمی نہیں آ رہی جو انٹرنل کنٹرول کی ناکامی ہے اور یہ سلسلہ کئی برسوں سے جاری ہے اور چلا ہی جا رہا ہے۔‘
دوسری جانب بیورو کریسی یہ سمجھتی ہے کہ آڈیٹر جنرل حکام ضرورت سے زیادہ باریکی میں جاتے ہیں۔ اگر کسی چیز کی خریداری میں پروکیورمنٹ قواعد پر عمل کیا بھی ہو اور اس میں کہیں کوئی خامی رہ جائے تو اس پر بھی آڈٹ اعتراض بنا دیا جاتا ہے۔
سابق سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود نے ’اردو نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وزارتوں میں سیکرٹری کے ساتھ ساتھ چیف اکاؤنٹنگ آفیسر اور فنانشل ایڈوائزر موجود ہوتے ہیں۔ ’ان سب کی موجودگی میں بے ضابطگیاں ہونی نہیں چاہئیں اور اگر ہو رہی ہیں تو ان کی درستی کرتے ہوئے توجیح بھی لینی چاہیے۔‘
اگر اس نظام کا جائزہ لیا جائے تو ہر وزارت کے پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر یعنی وفاقی سیکرٹری کے تحت ایک چیف اکاؤنٹنگ آفیسر تعینات کیا گیا ہے۔ یہ آفیسر وزارت کے مالی معاملات کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ عوامی پیسے کے قواعد سے ہٹ کر استعمال کو روکنے اور اس سلسلےمیں اقدامات کرنے کا بھی پابند ہے۔

آڈیٹر جنرل نے رپورٹ میں فراڈ، چوری اور کرپشن کی نشاندہی کی ہے، تصویر: ریڈیو پاکستان

ہر وزارت چھ ماہ بعد اپنا ایک انٹرنل آڈٹ کرتی ہے اور اس کی رپورٹ آڈیٹر جنرل کو بھی بھجواتی ہے۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سابق ایڈیشنل سیکرٹری طاہر حنفی نے ’اردو نیوز‘ کو بتایا کہ ’ وزارتوں میں تعینات افسران مالی حسابات کے ماہر نہیں ہوتے اس لیے وہ ’پروسیجرل بے ضابطگیاں‘ کرتے ہیں۔
ان کے مطابق سرکاری اداروں میں رقم کو استعمال کرنے میں بدنیتی سے زیادہ بے ضابطگی کا اثر ہوتا ہے، تاہم سیکرٹری کی جانب سے دیگر افسران کو سونپے گئے اختیارات کے باعث وہ افسران چیف اکاؤنٹنگ آفیسر کو بائی پاس کرتے ہیں جو بے ضابطگیوں کا باعث بنتا ہے۔ ‘
طاہر حنفی کا کہنا ہے کہ ’مخصوص دورانیے کی تعیناتی نہ ہونے کے باعث سیکرٹریز وزارتوں کے مالی معاملات میں کم ہی دلچسپی لیتے ہیں کیونکہ جب آڈٹ اعتراض کا جواب دینا ہوتا ہے تو ان کا متعلقہ وزارت سے تبادلہ ہو چکا ہوتا ہے اور جواب کسی اور کو دینا پڑتا ہے۔‘ 
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز پاک‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: